جنرل مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو رینج بڑھانے سے کیوں روکا؟ ایک خفیہ تاریخی واقعہ بے نقاب
ایٹمی قوت بننے کے چند ہی روز بعد پاکستان عالمی طاقتوں کی نظروں میں آ چکا تھا، مگر اسرائیل نے 1998 میں وہ قدم اٹھانے کی منصوبہ بندی کی، جس کا علم شاید آج بھی بہت کم لوگوں کو ہے۔ اطلاعات کے مطابق اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کی تجویز دی تھی۔
یہ تجویز اسرائیل کے ان خدشات کے تحت سامنے آئی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام “اسلامی دنیا کی نمائندگی” کرتا ہے اور یہ مستقبل میں اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، چاہے پاکستان کا اسرائیل سے براہ راست کوئی تنازع نہ ہو۔
—
🧠 ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سخت ردعمل
ذرائع کے مطابق، اسرائیل کے ممکنہ عزائم کی خبر ملتے ہی پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فوری طور پر ہتھیاروں کی مار کرنے کی حد (رینج) کو اسرائیل تک بڑھانے کی تجویز دی تاکہ پاکستان کے پاس ایک “ڈیٹرنس” یعنی روکنے والی طاقت موجود ہو۔
ان کا مؤقف تھا کہ:
> “اگر اسرائیل پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کا سوچتا ہے، تو ہمیں اسرائیل تک مار کرنے کی صلاحیت ضرور حاصل کرنی چاہیے۔”
—
⚔️ جنرل مشرف کا واضح انکار: “ہمارا دشمن صرف انڈیا ہے”
تاہم اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف اور بعد ازاں صدر بننے والے جنرل پرویز مشرف نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
> “ہمیں اسرائیل کو دشمن تصور نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام صرف بھارت کے خلاف دفاع کے لیے ہے۔ ہمیں غیر ضروری محاذ آرائی سے بچنا ہے۔”
یہ فیصلہ بظاہر سفارتی حکمتِ عملی کا حصہ تھا، تاکہ مغربی دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔
—
🕵️♂️ کیا اسرائیل واقعی حملہ کرنے والا تھا؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ:
اسرائیل نے 1981 میں عراق کے اوسیراک نیوکلئر ری ایکٹر پر حملہ کیا تھا
1998 میں پاکستان کے ایٹمی تجربات نے اسرائیل کو شدید پریشان کیا
امریکہ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس نے ممکنہ طور پر پاکستان کے پروگرام کو محدود کرنے کی تجاویز بھی دی تھیں
لیکن اسرائیل کا حملہ آخرکار کیوں نہ ہوا؟
اس پر دو آراء موجود ہیں:
1. امریکہ نے اسرائیل کو روکا، کیونکہ وہ جنوبی ایشیاء میں کشیدگی نہیں چاہتا تھا
2. پاکستان کے جوابی اقدامات اور خفیہ دفاعی صلاحیت نے اسرائیل کو باز رکھا
—
📊 تجزیاتی جدول: پاکستان – اسرائیل ایٹمی فاصلہ
پہلو 1998 میں صورتحال آج کی صورتحال
میزائل رینج 1,500 کلومیٹر (بھارت تک) 2,750+ کلومیٹر (اسرائیل تک ممکنہ حد)
سفارتی تعلقات غیر موجود اب بھی غیر موجود
ایٹمی پالیسی صرف بھارت پر فوکس وسیع البنیاد دفاعی نظرثانی جاری
اسرائیلی خدشات اسلامی بم کا تصور ایران پر توجہ مرکوز، مگر پاکستان بھی زیر نگرانی
—
💥 کیا آج بھی خطرہ موجود ہے؟
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود انٹیلی جنس دنیا میں دونوں ایک دوسرے پر نگاہ رکھتے ہیں
پاکستان کے ایٹمی اثاثے آج بھی اسرائیل کے لیے دلچسپی اور تشویش کا باعث ہیں
حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی میں پاکستان کا غیر جانب دار مؤقف خطے کے لیے اہم پیغام ہے
Leave a Reply