چین کا تیانن مین واقعہ: طلبہ کے خون سے لکھا گیا احتجاج

Oplus_16908288
8 / 100 SEO Score

تاریخ کا وہ دن، جب خاموشی چیخ بن گئی

 

1989 کا سال دنیا کے کئی ممالک کے لیے تبدیلی کا سال تھا، مگر چین میں یہ سال ایک ایسے واقعے سے جڑا جو آج تک تاریخ کے صفحات پر خون سے لکھا ہے — تیانن مین اسکوائر احتجاج۔ یہ محض ایک مظاہرہ نہ تھا، بلکہ یہ آزادی اظہار، جمہوریت اور انسانی حقوق کی صدا تھی، جو بیجنگ کی گلیوں سے پوری دنیا تک پہنچی۔

 

 

 

تیانن مین اسکوائر کہاں واقع ہے؟

 

تیانن مین اسکوائر بیجنگ، چین کے مرکز میں واقع ایک وسیع و عریض عوامی میدان ہے۔ یہ مقام چینی تاریخ، سیاست اور ثقافت میں نہایت اہمیت رکھتا ہے، لیکن 1989 میں یہ میدان ایک عظیم احتجاج کی علامت بن گیا۔

 

 

 

احتجاج کیوں شروع ہوا؟

 

پسِ منظر:

 

1980 کی دہائی میں چین معاشی اصلاحات کے دور سے گزر رہا تھا۔

 

تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ خاص طور پر طلبہ، حکومت سے مزید سیاسی اصلاحات، آزادی اظہار، اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کرنے لگے۔

 

15 اپریل 1989 کو ایک اصلاح پسند رہنما “ہو یاوبانگ” کی موت کے بعد طلبہ نے تیانن مین اسکوائر پر جمع ہو کر تعزیت اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ شروع کیا۔

 

 

 

 

مظاہروں کا پھیلاؤ

 

احتجاج چند دنوں میں پورے چین میں پھیل گیا۔ لاکھوں افراد — جن میں طلبہ، اساتذہ، ملازمین، صحافی اور عام شہری شامل تھے — بیجنگ سمیت کئی بڑے شہروں میں جمع ہوئے۔

 

بنیادی مطالبات:

 

جمہوری اصلاحات

 

کرپشن کا خاتمہ

 

اظہارِ رائے کی آزادی

 

پریس کی آزادی

 

حکومت میں شفافیت

 

 

 

 

حکومت کا ردِ عمل

 

ابتداء میں حکومت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، مگر جیسے جیسے مظاہرے شدت اختیار کرتے گئے، حکومتی حکام نے اسے ریاستی کنٹرول کے خلاف بغاوت تصور کرنا شروع کر دیا۔

 

مارشل لاء کا نفاذ:

 

4 جون 1989 کو حکومت نے بیجنگ میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور فوج کو حکم دیا کہ وہ اسکوائر خالی کروائے۔

 

 

 

وہ خونی رات: 3 اور 4 جون 1989

 

جون کی اس خونی رات کو چینی فوج نے دارالحکومت بیجنگ میں مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ ٹینک، مسلح فوجی اور بکتر بند گاڑیاں تیانن مین اسکوائر کی طرف روانہ ہوئیں۔

 

عالمی رپورٹس کے مطابق:

 

ہزاروں مظاہرین کو منتشر کیا گیا۔

 

گولیاں چلائی گئیں۔

 

متعدد طلبہ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

 

 

اگرچہ چینی حکومت نے کبھی ہلاکتوں کی اصل تعداد ظاہر نہیں کی، مگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 500 سے 3000 کے درمیان ہو سکتی ہے۔

 

 

 

“ٹینک مین” – مزاحمت کی علامت

 

تیانن مین واقعے کی ایک تاریخی تصویر پوری دنیا میں مشہور ہوئی — ایک نامعلوم نوجوان، جو اکیلا ایک ٹینک کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ یہ تصویر آج بھی انسانی مزاحمت اور حوصلے کی عالمی علامت سمجھی جاتی ہے۔

 

 

 

چین کا مؤقف اور سینسر شپ

 

چینی حکومت آج بھی تیانن مین واقعے کو “فسادیوں کا انتشار” قرار دیتی ہے۔ چین میں:

 

اس واقعے کی کوئی عوامی یادگار موجود نہیں۔

 

اخبارات، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اس کے ذکر پر سخت پابندی ہے۔

 

اسکولوں میں اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

 

 

 

 

عالمی ردِعمل

 

واقعے کے بعد دنیا بھر میں چین کے خلاف سخت ردِعمل سامنے آیا:

 

کئی ممالک نے چین کے ساتھ تعلقات محدود کیے۔

 

انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔

 

اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

 

 

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ چین کی معاشی ترقی نے ان عالمی تنقیدوں کو مدھم کر دیا۔

 

 

 

آج کا چین اور تیانن مین

 

تیانن مین واقعے کے بعد چین میں ترقی کی رفتار تیز ہوئی، مگر سیاسی آزادی اب بھی محدود ہے۔ احتجاج اور اختلافِ رائے کو سختی سے دبایا جاتا ہے، مگر نوجوان نسل آج بھی جاننا چاہتی ہے کہ “اس دن کیا ہوا تھا؟”

 

 

 

نتیجہ

 

تیانن مین اسکوائر کا واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کے لیے دی گئی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ اگرچہ اس پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، لیکن دنیا اس سچ کو فراموش نہیں کر سکتی۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔