را اور موساد کا خفیہ تعاون — دفاعی اتحاد خطے کے امن کیلئے بڑا خطرہ

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی فضا پہلے ہی خطرناک سطح پر ہے، اور اب اطلاعات کے مطابق بھارت کی خفیہ ایجنسی را (RAW) اور اسرائیل کی بدنام زمانہ ایجنسی موساد (Mossad) کے درمیان ایک نئے خفیہ دفاعی اتحاد نے خطے کے امن کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔ دونوں ایجنسیوں کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون نہ صرف پاکستان اور ایران جیسے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ یہ اتحاد پورے ایشیائی و عرب خطے کے توازن کو بگاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 

 

 

🕵️‍♂️ را اور موساد: پس پردہ خطرناک گٹھ جوڑ

 

را اور موساد دونوں ہی دنیا کی وہ خفیہ ایجنسیاں ہیں جن کا ماضی خفیہ آپریشنز، قتل و غارت، حکومتوں کی تبدیلی اور اندرونی بغاوتوں میں کردار سے بھرا ہوا ہے۔

 

تاریخی پس منظر:

 

موساد کو 1960ء کے عشرے سے لے کر آج تک مشرق وسطیٰ میں طاقتور ترین خفیہ ہاتھ تصور کیا جاتا ہے۔

 

را نے 1971 میں پاکستان کو توڑنے میں جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

 

 

اب اطلاعات کے مطابق دونوں ایجنسیوں نے ایک نیا “سٹریٹیجک سکیورٹی پیکٹ” ترتیب دیا ہے، جس کے تحت:

 

جدید جاسوسی آلات کا تبادلہ

 

مشترکہ تربیتی مشقیں

 

پاکستان، ایران، اور چین میں تخریب کاری کے منصوبے

 

سائبر حملوں کے لیے مشترکہ یونٹس کا قیام

جیسے عزائم شامل ہیں۔

 

 

 

 

📌 پاکستان، ایران، اور خطے کے دیگر ممالک کیلئے خطرات

 

1. پاکستان پر اثرات:

 

بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کو فنڈنگ اور تربیت

 

گلگت بلتستان میں سیکورٹی تنصیبات کی نگرانی

 

کراچی، لاہور، اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی سازشیں

 

سائبر وارفیئر میں پاکستان کی تنصیبات کو نشانہ بنانا

 

 

2. ایران کیلئے خطرہ:

 

ایران کے جوہری پروگرام پر موساد کی “ریموٹ مانیٹرنگ” ٹیکنالوجی را کے ذریعے فراہم کرنا

 

ایران میں اسرائیلی مفادات کے لیے بھارتی زمینی نیٹ ورک کی مدد

 

 

3. چین کی سی پیک سرمایہ کاری متاثر:

 

موساد اور را کی نظریں گوادر بندرگاہ اور سی پیک منصوبے پر ہیں

 

سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کو اسلحہ و سرمایہ فراہم کیا جا رہا ہے

 

 

 

 

🧠 تجزیہ: یہ اتحاد کس کے لیے فائدہ مند؟

 

یہ دفاعی اتحاد بظاہر بھارت اور اسرائیل کے لیے مفید دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطے میں آگ لگانے کے مترادف ہے۔ دونوں ممالک کے یہ اقدامات:

 

بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی

 

اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی

 

خطے کی اقوام کے حق خودارادیت میں مداخلت ہیں۔

 

 

 

 

📊 خطرات کا تجزیاتی جدول

 

خطرہ تفصیل

 

انٹیلیجنس اشتراک موساد کی جدید ٹیکنالوجی را کے آپریشنز کو تقویت دیتی ہے

سائبر حملے حساس تنصیبات پر مشترکہ سائبر حملوں کی منصوبہ بندی

پراکسی وار دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار، سرمایہ اور تربیت کی فراہمی

میڈیا میں پروپیگنڈا پاکستان و ایران کے خلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا

مذہبی انتشار فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینا

 

 

 

 

🌐 عالمی ردعمل اور سفارتی پیچیدگیاں

 

چین:

 

چین کے سی پیک منصوبے پر موساد-را اتحاد کی نظریں خطرناک سمجھی جا رہی ہیں۔ بیجنگ نے پاکستان سے سیکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

 

ایران:

 

ایران نے حالیہ دنوں میں موساد اور بھارتی ایجنسیوں کے کئی جاسوس گرفتار کیے ہیں اور اقوام متحدہ کو ثبوت بھی فراہم کیے۔

 

ترکی و روس:

 

ترکی اور روس نے موساد کے خطے میں بڑھتے ہوئے کردار پر تشویش ظاہر کی ہے اور مشترکہ انٹیلیجنس تعاون پر غور کر رہے ہیں۔

 

 

 

🔥 خفیہ آپریشنز کی حالیہ جھلکیاں

 

جنوری 2025: پاکستان کے گوادر میں را اور موساد کے فنڈڈ گروپ کی کارروائی

 

مارچ 2025: ایران میں موساد-را مشترکہ نیٹ ورک بے نقاب، 15 افراد گرفتار

 

مئی 2025: لاہور میں حساس اداروں کے دفتر کے قریب سائبر حملے کی کوشش

 

 

 

 

✍️ ماہرین کا کہنا ہے:

 

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ:

 

> “یہ اتحاد صرف انٹیلیجنس شیئرنگ نہیں، ایک مکمل جنگی پیکٹ ہے۔ پاکستان اور ایران کو مشترکہ دفاعی لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔”

 

 

 

پروفیسر علی رضا (بین الاقوامی تعلقات):

 

> “را اور موساد کا گٹھ جوڑ کسی وقت بھی مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔”

 

 

 

 

 

📢 نتیجہ: خطے کو متحد ہونے کی ضرورت

 

موجودہ صورتحال میں اگر اسلامی دنیا، خصوصاً پاکستان، ایران، ترکی اور چین نے متحد ہو کر را اور موساد کی مداخلت کا جواب نہ دیا تو:

 

خطے میں امن خواب بن کر رہ جائے گا

 

سی پیک جیسے منصوبے ختم ہو سکتے ہیں

 

عوامی اور عسکری سیکیورٹی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔