مولانا طارق جمیل کی تقریر پر پابندی کا دعویٰ جھوٹا نکلا: اندرونی بدانتظامی نے سب کو گمراہ کر دیا!

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

 

پاکستان میں جب بھی کوئی دینی یا سماجی شخصیت خبروں کی زینت بنتی ہے، سوشل میڈیا پر افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے۔ حالیہ دنوں مولانا طارق جمیل صاحب کے حوالے سے ایک ایسی ہی سنسنی خیز خبر نے لاکھوں دلوں کو چونکا دیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ ان کی ایک تقریر کو نہ صرف روکا گیا بلکہ اس کے پیچھے مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ یا کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ ہے۔ تاہم اب تحقیق اور مصدقہ ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق یہ تمام دعوے غلط، بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔

 

 

 

حقیقت کیا ہے؟

 

سچ یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کی تقریر پر نہ تو اسٹیبلشمنٹ نے پابندی لگائی، نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اصل مسئلہ تبلیغی جماعت کے اندرونی انتظامی معاملات کا ہے، جس میں کوآرڈینیشن کی کمی، بدانتظامی اور فیصلہ سازی میں تاخیر جیسے عوامل نے ایک غلط تاثر کو جنم دیا۔

 

 

 

سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہیں: سنسنی یا سازش؟

 

مختلف یوٹیوبرز نے دعویٰ کیا کہ “مولانا کو روک دیا گیا ہے”

 

بعض وی لاگرز نے الزام لگایا کہ “طاقتور ادارے مولانا کے بیانیے سے خائف ہیں”

 

کچھ افراد نے اس واقعے کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے مخصوص جماعتوں کو نشانہ بنایا

 

 

تاہم ان تمام بیانات میں کوئی مستند حوالہ یا ثبوت موجود نہیں تھا۔ صحافتی اصولوں کے مطابق ایسی خبر شائع کرنا پیشہ ورانہ غیر ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

 

 

 

ترجمان تبلیغی جماعت کی وضاحت

 

تبلیغی جماعت کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ:

 

معاملہ وضاحت

 

تقریر کا التوا اندرونی تنظیمی مسئلہ

پابندی کا الزام بے بنیاد

اسٹیبلشمنٹ کا تعلق صفر

سیاسی جماعتوں کا کردار بالکل نہیں

مولانا طارق جمیل کی پوزیشن مکمل آزاد اور فعال

 

 

 

 

مولانا طارق جمیل کہاں کھڑے ہیں؟

 

مولانا طارق جمیل کا شمار پاکستان کے سب سے بااثر، مقبول اور معتدل دینی علما میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف تبلیغی مشن کے اہم ستون ہیں بلکہ نوجوان نسل، کاروباری طبقے، سیاستدانوں اور شوبز شخصیات میں بھی ان کا وسیع اثر ہے۔ ان کی تقاریر لوگوں کو روحانی، اخلاقی اور سماجی اصلاح کی طرف مائل کرتی ہیں۔

 

ایسے میں ان پر کسی بھی قسم کی پابندی یا قدغن کا الزام ایک سنسنی خیز مگر غیر ذمہ دارانہ دعویٰ ہے۔

 

 

 

افواہوں کے اثرات: معاشرتی خلفشار

 

جب اس قسم کی غیر مصدقہ خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں تو اس کے کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:

 

عوام کا اعتماد اداروں پر سے اٹھنے لگتا ہے

 

دینی طبقے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے

 

سیاسی انتشار کو تقویت ملتی ہے

 

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے

 

 

 

 

یہ افواہیں کیوں پھیلتی ہیں؟

 

یہ بات اب ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے صحافت کا متبادل بننے کی کوشش کی ہے، لیکن ذمہ داری کے بغیر۔ یوٹیوبرز اور وی لاگرز نے صرف ویوز اور سبسکرائبرز کی خاطر جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلانا معمول بنا لیا ہے۔

 

کلک بیٹ ہیڈ لائنز کے ذریعے سنسنی پھیلانا

 

اداروں کو بدنام کرنا ایک خاص بیانیے کے تحت

 

دینی رہنماؤں کو سیاسی تنازعات میں گھسیٹنا

 

 

یہ تمام عوامل پاکستان کے اندرونی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

 

 

 

ذمہ داری کس کی ہے؟

 

افواہ پھیلانا جتنا جرم ہے، اتنا ہی بڑا جرم ہے اسے بغیر تحقیق آگے بڑھانا۔ یہاں تمام سوشل میڈیا صارفین، صحافیوں اور وی لاگرز کی ذمہ داری ہے کہ:

 

کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کریں

 

دینی شخصیات کے حوالے سے انتہائی احتیاط برتیں

 

ریٹنگ کے چکر میں سچ کو قربان نہ کریں

 

 

 

 

مولانا کا پیغام: دین، اتحاد اور اصلاح

 

مولانا طارق جمیل ہمیشہ امت کے اتحاد، باہمی احترام اور دین پر استقامت کا درس دیتے رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوشش نہ صرف ان کے مشن کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ پاکستان کے امن کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔

 

 

 

نتیجہ: معاملہ محض بدانتظامی کا تھا، کوئی پابندی نہیں لگی

 

آخر میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مولانا طارق جمیل کی تقریر یا سرگرمیوں پر نہ کوئی پابندی تھی اور نہ ہی کوئی دباؤ۔ معاملہ صرف تبلیغی جماعت کی اندرونی کوتاہی تھا، جسے چند سنسنی پسند عناصر نے سیاسی اور ریاستی سازش کا رنگ دے دیا

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔