حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں اور سلیب سسٹم میں بڑی تبدیلی کے بعد، وہ صارفین جو مہنگی بجلی سے بچنے کے لیے گھروں میں دو یا دو سے زیادہ میٹر لگوا چکے تھے، اب ایک نئے بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ “دو میٹر لگواؤ، بِل بچاؤ” کا خواب اب “دو میٹر لگواؤ، دوہرا بِل بھگتو” میں بدل چکا ہے۔
کیا ہے معاملہ؟
ملک بھر میں بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد صارفین نے بچت کے لیے مختلف حربے اپنانا شروع کیے تھے۔ ان میں سے سب سے عام طریقہ یہ تھا کہ ایک گھر میں دو الگ الگ میٹر لگوا لیے جائیں، تاکہ ہر میٹر پر کم یونٹ استعمال ہوں اور سلیب سسٹم کے تحت کم نرخ لاگو ہوں۔
لیکن اب نیا فیصلہ آ چکا ہے:
دو یا زائد میٹرز رکھنے والے گھریلو صارفین کے یونٹس کو ایک ساتھ شمار کیا جائے گا۔
نئے نظام کے تحت بجلی کا بِل ایک ہی ٹیرف پر لگے گا۔
نیپرا اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے اس پالیسی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
—
کیا ہے سلیب سسٹم؟
سلیب سسٹم وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت بجلی کے نرخ مختلف یونٹس کے حساب سے بڑھتے ہیں:
یونٹس کی حد فی یونٹ نرخ (روپے میں)
1-100 یونٹس 7.74 روپے
101-200 یونٹس 10.06 روپے
201-300 یونٹس 12.15 روپے
301-700 یونٹس 19.55 روپے
700 سے زائد 24 روپے یا اس سے زیادہ
لہٰذا دو الگ میٹر لگانے سے لوگ ہر میٹر پر 100-200 یونٹس میں رہتے ہوئے کم بل ادا کرتے تھے۔ مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا۔
—
ایک سے زیادہ میٹر؟ نقصان ہی نقصان!
نئی پالیسی کے تحت:
ایک ہی گھر میں لگے تمام میٹرز کا ڈیٹا آپس میں جوڑا جا رہا ہے۔
صارف کے شناختی کارڈ، ایڈریس اور کنیکشن ہسٹری سے پتا لگایا جا رہا ہے کہ کون ایک ہی مقام پر متعدد میٹرز استعمال کر رہا ہے۔
ان میٹرز کے یونٹس جمع کرکے ایک ہی بلنگ سلیب لاگو کی جا رہی ہے۔
—
عام آدمی پر اثرات
یہ فیصلہ براہ راست متوسط طبقے اور سفید پوش طبقے کو متاثر کر رہا ہے، کیونکہ:
جنہوں نے اپنے چھوٹے گھروں میں کرایہ داروں یا خاندان کے دوسرے افراد کے لیے علیحدہ میٹر لگوائے تھے، اب انہیں دوہرا بِل ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
جن کے گھروں میں ایک منزل پر ایک فیملی اور دوسری پر دوسری رہتی ہے، وہ بھی اب ایک ہی ہائی سلیب میں آ رہے ہیں۔
مہینے کے اختتام پر بِل ہزاروں میں آ رہا ہے، جبکہ استعمال شدہ بجلی پہلے جیسی ہی ہے۔
—
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بجلی کے نظام کے ماہرین کا کہنا ہے:
> “یہ اقدام دراصل حکومت کی اس کوشش کا حصہ ہے کہ سلیب سے بچنے والے راستے بند کیے جائیں اور زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل ہو۔”
مگر وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس سے بجلی چوروں کو تو فائدہ نہیں ہوگا، البتہ ایماندار صارفین سخت متاثر ہوں گے۔
—
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر بھی اس پالیسی کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے:
ایک صارف نے لکھا: “بجلی کا بِل تو ویسے ہی ناقابلِ برداشت تھا، اب دو میٹر رکھنے کا بھی فائدہ نہیں۔”
دوسرے نے کہا: “پہلے کہا جاتا تھا کہ دو میٹر لگوالو، اب وہی جرم بن گیا ہے؟”
—
حکومت کا مؤقف
وزارتِ توانائی کے ذرائع کے مطابق:
اس اقدام کا مقصد بجلی کے سبسڈی سسٹم کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔
سلیب سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کو روکنا ضروری تھا۔
تمام صارفین کو برابر نرخ پر بجلی دینا ہی انصاف ہے۔
—
حل کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق:
حکومت کو چاہیے کہ وہ حقیقی کرایہ داروں اور مشترکہ گھروں کے لیے کوئی الگ زمرہ یا رجسٹریشن سسٹم متعارف کرائے۔
صارفین کو ایک شفاف اپیل سسٹم دیا جائے جہاں وہ اپنا موقف بیان کر سکیں۔
صرف سلیب سسٹم سے بچنے والوں کو ہی نشانہ بنایا جائے، مشترکہ رہائش کے مجبوری میں لگائے گئے میٹرز کو نہیں۔
—
نتیجہ: عوام پھنس گئی، پالیسی سوالیہ نشان؟
بجلی کے بِل سے بچنے کے لیے جو طریقہ عوام نے اپنایا، وہ اب خود ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ دو میٹر رکھنے والا صارف مزید بِل ادا کر رہا ہے، جبکہ چور بجلی والے اب بھی آزاد ہیں۔ حکومت کو اس پالیسی پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ حقیقی ضرورت مند متاثر نہ ہوں۔
—
Leave a Reply