خطرہ ابھی باقی ہے! بھارتی وزیراعظم کی ایک بار پھر پاکستان پر حملے کی دھمکی — خطہ جنگ کے دہانے پر؟

Oplus_16908288
7 / 100 SEO Score

جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک حالیہ بیان میں ایک بار پھر پاکستان کو حملے کی دھمکی دے دی ہے۔ خطے میں موجودہ جغرافیائی و سیاسی تناؤ کو دیکھتے ہوئے اس دھمکی کو محض ایک بیان بازی نہیں بلکہ ممکنہ جنگی خطرے کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

 

مودی کا بیان: سیاسی سٹنٹ یا حقیقی خطرہ؟

 

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

 

> “اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی سرزمین پر حملہ کرنے والوں کو ان کے گھروں میں گھس کر ماریں گے۔ پاکستان کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے۔”

 

 

 

یہ بیان نہ صرف انتخابی سیاست میں شدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

 

پاکستان کا شدید ردعمل

 

پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا:

 

> “یہ بیان غیر ذمہ دارانہ، اشتعال انگیز اور علاقائی امن کے خلاف ہے۔ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔”

 

 

 

ماضی کے خطرناک موڑ: کیا ہم دوبارہ 2019 کی طرف جا رہے ہیں؟

 

یہ پہلا موقع نہیں جب بھارتی قیادت نے پاکستان پر حملے کی بات کی ہو۔ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا تھا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھرپور کارروائی کی۔ اس کشیدگی کے دوران ایک بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو پاکستان نے گرفتار کر کے بعد میں خیر سگالی کے طور پر واپس کیا تھا۔

 

جدول: پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدہ مواقع

 

سال واقعہ نتیجہ

 

2016 اُڑی حملہ بھارت کا سرجیکل اسٹرائیک دعویٰ

2019 پلوامہ حملہ بالاکوٹ فضائی کارروائی

2019 ابھی نندن کی گرفتاری پاک فضائیہ کا بھرپور جواب

2023 لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں متعدد جانیں ضائع، کشیدگی میں اضافہ

2025 مودی کا تازہ بیان جنگی خطرے کی نئی لہر

 

 

تجزیہ: مودی کا جنگی بیانیہ کیوں؟

 

الیکشن کمپین: بھارتی وزیراعظم ہر بار انتخابات سے قبل پاکستان مخالف بیانات دے کر قوم پرستی کو ہوا دیتے ہیں تاکہ ووٹرز کا مذہبی اور عسکری جذبات ابھارا جا سکے۔

 

ہندوتوا ایجنڈا: بی جے پی کا سیاسی منشور پاکستان مخالف جذبات پر قائم ہے، جس کے تحت اقلیتوں اور ہمسایہ ممالک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

 

توجہ کی تبدیلی: داخلی ناکامیوں، مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگی بیانات استعمال کیے جاتے ہیں۔

 

 

عالمی ردعمل اور اقوام متحدہ کی خاموشی

 

اب تک عالمی سطح پر کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اقوام متحدہ، امریکہ، چین اور دیگر بڑی طاقتوں نے صرف تحمل کی تلقین کی ہے، جو پاکستان کے لیے مایوس کن ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے سنجیدگی نہ دکھائی تو دونوں جوہری طاقتیں آمنے سامنے آ سکتی ہیں۔

 

جنگ کے ممکنہ اثرات

 

اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو اس کے اثرات صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ:

 

جنوبی ایشیا کا امن تباہ ہو جائے گا

 

معاشی بحران مزید شدت اختیار کرے گا

 

لاکھوں جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی

 

بین الاقوامی تجارت متاثر ہوگی

 

جوہری ہتھیاروں کا استعمال ایک عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے

 

 

پاکستان کی دفاعی تیاری

 

پاکستانی افواج پہلے ہی ہائی الرٹ پر ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں واضح کیا:

 

> “ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو قوم اور افواج مل کر دشمن کو منہ توڑ جواب دیں گے۔”

 

 

 

عوامی جذبات اور سوشل میڈیا کا طوفان

 

مودی کے بیان کے بعد پاکستان بھر میں عوامی غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر #ModiThreats، #PakistanStandsStrong جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ لوگ بھارتی جارحیت کے خلاف حکومت پاکستان سے مؤثر سفارتی و عسکری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 

نتیجہ: جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں!

 

نریندر مودی کے تازہ بیان نے خطے میں جنگ کے بادل ایک بار پھر گہرے کر دیے ہیں۔ امن کے قیام کے لیے دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، مگر بھارت کی اشتعال انگیزی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری بروقت اقدامات کرے گی یا جنوبی ایشیا ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف بڑھتا جائے گا؟

جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک حالیہ بیان میں ایک بار پھر پاکستان کو حملے کی دھمکی دے دی ہے۔ خطے میں موجودہ جغرافیائی و سیاسی تناؤ کو دیکھتے ہوئے اس دھمکی کو محض ایک بیان بازی نہیں بلکہ ممکنہ جنگی خطرے کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

مودی کا بیان: سیاسی سٹنٹ یا حقیقی خطرہ؟

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

> “اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی سرزمین پر حملہ کرنے والوں کو ان کے گھروں میں گھس کر ماریں گے۔ پاکستان کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے۔”

 

یہ بیان نہ صرف انتخابی سیاست میں شدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

پاکستان کا شدید ردعمل

پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا:

> “یہ بیان غیر ذمہ دارانہ، اشتعال انگیز اور علاقائی امن کے خلاف ہے۔ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔”

 

ماضی کے خطرناک موڑ: کیا ہم دوبارہ 2019 کی طرف جا رہے ہیں؟

یہ پہلا موقع نہیں جب بھارتی قیادت نے پاکستان پر حملے کی بات کی ہو۔ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا تھا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھرپور کارروائی کی۔ اس کشیدگی کے دوران ایک بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو پاکستان نے گرفتار کر کے بعد میں خیر سگالی کے طور پر واپس کیا تھا۔

جدول: پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدہ مواقع

سال واقعہ نتیجہ

2016 اُڑی حملہ بھارت کا سرجیکل اسٹرائیک دعویٰ
2019 پلوامہ حملہ بالاکوٹ فضائی کارروائی
2019 ابھی نندن کی گرفتاری پاک فضائیہ کا بھرپور جواب
2023 لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں متعدد جانیں ضائع، کشیدگی میں اضافہ
2025 مودی کا تازہ بیان جنگی خطرے کی نئی لہر

تجزیہ: مودی کا جنگی بیانیہ کیوں؟

الیکشن کمپین: بھارتی وزیراعظم ہر بار انتخابات سے قبل پاکستان مخالف بیانات دے کر قوم پرستی کو ہوا دیتے ہیں تاکہ ووٹرز کا مذہبی اور عسکری جذبات ابھارا جا سکے۔

ہندوتوا ایجنڈا: بی جے پی کا سیاسی منشور پاکستان مخالف جذبات پر قائم ہے، جس کے تحت اقلیتوں اور ہمسایہ ممالک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

توجہ کی تبدیلی: داخلی ناکامیوں، مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگی بیانات استعمال کیے جاتے ہیں۔

عالمی ردعمل اور اقوام متحدہ کی خاموشی

اب تک عالمی سطح پر کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اقوام متحدہ، امریکہ، چین اور دیگر بڑی طاقتوں نے صرف تحمل کی تلقین کی ہے، جو پاکستان کے لیے مایوس کن ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے سنجیدگی نہ دکھائی تو دونوں جوہری طاقتیں آمنے سامنے آ سکتی ہیں۔

جنگ کے ممکنہ اثرات

اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو اس کے اثرات صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ:

جنوبی ایشیا کا امن تباہ ہو جائے گا

معاشی بحران مزید شدت اختیار کرے گا

لاکھوں جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی

بین الاقوامی تجارت متاثر ہوگی

جوہری ہتھیاروں کا استعمال ایک عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے

پاکستان کی دفاعی تیاری

پاکستانی افواج پہلے ہی ہائی الرٹ پر ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں واضح کیا:

> “ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو قوم اور افواج مل کر دشمن کو منہ توڑ جواب دیں گے۔”

 

عوامی جذبات اور سوشل میڈیا کا طوفان

مودی کے بیان کے بعد پاکستان بھر میں عوامی غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر #ModiThreats، #PakistanStandsStrong جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ لوگ بھارتی جارحیت کے خلاف حکومت پاکستان سے مؤثر سفارتی و عسکری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

نتیجہ: جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں!

نریندر مودی کے تازہ بیان نے خطے میں جنگ کے بادل ایک بار پھر گہرے کر دیے ہیں۔ امن کے قیام کے لیے دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، مگر بھارت کی اشتعال انگیزی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری بروقت اقدامات کرے گی یا جنوبی ایشیا ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف بڑھتا جائے گا؟

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔