کراچی میں 18 اکتوبر 2007 کی رات تاریخ کا ایک خوفناک باب بنی
18 اکتوبر 2007 کی رات کراچی میں ہونے والا واقعہ صرف ایک سیاسی جلسہ یا جلوس نہ تھا، بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے خونی واقعات میں سے ایک تھا۔ یہ وہ دن تھا جب سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں اور ان کے استقبال کے لیے لاکھوں لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ مگر یہ دن خوشی کے بجائے دہشت گردی، خون اور آنسوؤں میں بدل گیا۔
—
کارساز حملہ: دو دھماکے، سینکڑوں لاشیں
بے نظیر بھٹو کا جلوس جب کارساز کے مقام پر پہنچا، تو دو زوردار دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں میں 150 سے زائد افراد جاں بحق اور 400 سے زائد زخمی ہوئے۔ خود بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں، مگر اس حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان کی سیاست، سیکیورٹی ادارے اور عوام سب سوالات کے بھنور میں گھر گئے:
یہ حملہ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ اور اصل مقصد کیا تھا؟
—
سازش یا انتقام: اصل محرکات کیا تھے؟
اس واقعے کے بعد متعدد سوالات ابھرے:
کیا یہ حملہ انتقام تھا ان پالیسیوں کا جو بے نظیر بھٹو نے ماضی میں اختیار کیں؟
کیا یہ ایک سیاسی سازش تھی، جو ان کی واپسی کو روکنے کے لیے کی گئی؟
کیا حملے میں ملوث عناصر ملک کے اندر موجود تھے یا بیرونی ہاتھ کارفرما تھا؟
ان سوالات کے جوابات آج بھی مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکے، حالانکہ اس واقعے کو تقریباً دو دہائیاں ہو چکی ہیں۔
—
مختلف نظریات، مختلف تجزیے
1۔ داخلی سازش کا الزام
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حملہ انٹیلیجنس ناکامی کا نتیجہ تھا اور ممکنہ طور پر کچھ عناصر نہیں چاہتے تھے کہ بے نظیر واپس آئیں، کیونکہ ان کی واپسی طاقت کے توازن کو بدل سکتی تھی۔
2۔ دہشت گرد تنظیموں کا کردار
حملے کے فوراً بعد کچھ مذہبی شدت پسند گروہوں پر الزام لگایا گیا، جو جمہوریت اور خواتین کی قیادت کے خلاف تھے۔ اس نظریے کو کچھ انٹیلیجنس رپورٹس نے تقویت بھی دی۔
3۔ بین الاقوامی سیاسی تناظر
کچھ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی واپسی اور ان کا مغرب نواز مؤقف کچھ طاقتوں کو قبول نہ تھا، اور ان پر حملہ کرکے ایک پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔
—
سیکیورٹی خدشات پہلے سے موجود تھے
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی واپسی سے قبل حکومت پاکستان اور عالمی اداروں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ کون ان کی جان کا دشمن ہے، اور کچھ افراد کے نام بھی تحریری طور پر بھیجے گئے تھے۔
مگر اس کے باوجود، حفاظتی انتظامات میں کئی خلا موجود تھے۔
—
حملے کے بعد کی سیاست
اس حملے نے نہ صرف ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی بلکہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کو ایک مزاحمتی علامت بنا دیا۔ ان کی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) نے حملے کے بعد سیاسی ہمدردی کی بڑی لہر حاصل کی۔
بدقسمتی سے، صرف دو ماہ بعد ہی 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو ایک اور حملے میں شہید کر دیا گیا، جس نے قوم کو مزید سوگوار کر دیا۔
—
کیا سچ کبھی سامنے آئے گا؟
بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملے آج بھی تحقیقاتی تنازعہ کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی تحقیقات، جے آئی ٹیز، ایف آئی اے رپورٹس سب نے اپنی اپنی تفصیلات پیش کیں، مگر فیصلہ کن شواہد اور سزائیں ناپید رہیں۔
—
نتیجہ: ایک المیہ جو قومی ضمیر پر سوال چھوڑ گیا
کارساز کا حملہ نہ صرف ایک سیاسی لیڈر کے استقبال پر حملہ تھا بلکہ جمہوریت، عوامی طاقت، اور آزادیٔ اظہار پر بھی ایک کاری ضرب تھی۔ یہ واقعہ آج بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت کے تحفظ، سچائی کی تلاش، اور انصاف کی فراہمی کتنا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
—
Leave a Reply