سعودی عرب اور چین میں نیا معاشی معاہدہ: مشرق وسطیٰ میں نئی اقتصادی صف بندی

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، توانائی، ٹیکنالوجی اور ٹرانسپورٹ منصوبوں کا اعلان

 

ریاض/بیجنگ: دنیا کی دو بڑی معیشتیں — سعودی عرب اور چین — نے ایک نئے اور وسیع البنیاد معاشی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، توانائی، ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ، اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ تجزیہ کار اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کی نئی اقتصادی صف بندی قرار دے رہے ہیں۔

 

 

 

🤝 معاہدے کی تفصیلات:

 

ریاض میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں دونوں ممالک نے جن شعبوں پر معاہدے کیے، ان میں شامل ہیں:

 

شعبہ تفصیل

 

توانائی 15 ارب ڈالر کا معاہدہ شمسی اور ہائیڈرو پاور منصوبوں پر

ٹیکنالوجی مشترکہ AI ریسرچ سینٹرز، ڈیجیٹل اکنامی تعاون

ٹرانسپورٹ سعودی ریلوے میں چینی تکنیکی سرمایہ کاری

فری ٹریڈ آئندہ 5 سال میں 100 ارب ڈالر تک تجارتی حجم کا ہدف

 

 

چینی صدر شی جن پنگ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ٹیلی میٹنگ میں اس معاہدے کی توثیق کی گئی۔

 

 

 

🌍 کیوں ہے یہ معاہدہ اہم؟

 

1. عالمی طاقتوں کا جھکاؤ مشرق کی طرف

 

امریکہ کی موجودہ پالیسیوں سے ناراض ممالک اب چین کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہے ہیں۔ سعودی عرب بھی اب چین کے ساتھ کثیر الجہتی تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے۔

 

2. “وژن 2030” کی سپورٹ

 

یہ معاہدہ سعودی عرب کے اقتصادی اصلاحاتی منصوبے “وژن 2030” کا اہم حصہ ہے، جس کا مقصد تیل پر انحصار کم کرکے متبادل شعبوں کو فروغ دینا ہے۔

 

3. “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” میں سعودی شمولیت

 

سعودی عرب نے چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” میں باضابطہ شمولیت کا عندیہ بھی دیا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں تجارتی راہداریوں کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

 

 

 

🧠 تجزیہ: کیا امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

 

بین الاقوامی مبصرین اس معاہدے کو امریکہ کے اثر و رسوخ کے لیے چیلنج سمجھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں چین کا بڑھتا کردار اب محض تجارتی نہیں بلکہ اسٹریٹجک بھی بنتا جا رہا ہے۔

 

چین کی نرمی پر مبنی سفارت کاری سعودی عرب جیسے اتحادیوں کو متوجہ کر رہی ہے۔

 

امریکہ کے مقابلے میں کوئی سیاسی شرائط عائد نہ کرنا چین کی خاص طاقت ہے۔

 

 

 

 

🗣 سعودی ولی عہد کا بیان:

 

> “ہم چین کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ جدت، ٹیکنالوجی، اور پائیدار ترقی میں بھی شراکت داری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔”

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔