ایران نے اسرائیل پر تیل کے بدلے خفیہ معاہدوں کا انکشاف کر دیا؛ عالمی سفارتی ہلچل

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

تہران کی جانب سے حیران کن دعویٰ

 

ایران کے سابق سفارتی اہلکار اور تجزیہ کار رائے جے ایلس ورتھ کی ایک رپورٹ نے مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی گرما گرمی پیدا کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماضی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تیل اور ٹیکنالوجی کا ایک خفیہ معاہدہ موجود رہا ہے۔

 

ایلس ورتھ کے مطابق یہ معاہدہ شاہ ایران کے دورِ حکومت میں “ساواک” (ایرانی انٹیلیجنس) اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی “موساد” کے درمیان طے پایا تھا، تاکہ دونوں ممالک عرب ممالک کی ناراضی سے بچتے ہوئے باہمی تعلقات قائم رکھ سکیں۔

 

 

 

خفیہ تعلقات کی نوعیت

 

ایران نے خام تیل اسرائیل کو فراہم کیا

 

بدلے میں ٹیکنالوجی، امریکی اسلحہ تک رسائی اور انٹیلی جنس تعاون حاصل کیا

 

ایرانی سفارتکار ترکی کے راستے اسرائیل جاتے، لیکن ان کے پاسپورٹس پر کوئی سرکاری مہر نہیں لگائی جاتی تھی

 

 

یہ عمل کئی سالوں تک پسِ پردہ جاری رہا، جس کا مقصد عرب دنیا کے ردعمل سے بچنا اور دونوں ممالک کے اسٹریٹیجک مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔

 

 

 

عرب دنیا میں ردعمل

 

اس انکشاف پر عرب میڈیا اور تجزیہ کاروں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے موجودہ سفارتی مؤقف کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔

 

کئی ماہرین نے اس رپورٹ کو “پرانے باب کی کھلی کتاب” قرار دیا، جبکہ بعض نے دعویٰ کیا کہ ایران اب اپنے ماضی سے خود فاصلہ پیدا کر کے موجودہ سیاسی مؤقف کو تقویت دینا چاہتا ہے۔

 

 

 

اسرائیل کی جانب سے خاموشی

 

تاحال اسرائیلی حکومت یا کسی سرکاری نمائندے نے ان دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم، مغربی سفارتی حلقوں میں اس معاملے پر غیر معمولی تجسس اور تجزیہ جاری ہے۔

 

 

 

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

 

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ:

 

ایران اور اسرائیل کے تاریخی پیچیدہ تعلقات کو ایک نیا زاویہ دیتی ہے

 

مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو مزید غیر متوقع موڑ پر لے جا سکتی ہے

 

ایران کے اندرونی حلقے شاید اس رپورٹ کو موجودہ حکومت کی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کریں

 

 

 

 

🔍 خلاصہ

 

یہ انکشاف عالمی سطح پر ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تاریخی پیچیدگی کو اجاگر کرتا ہے، اور اس سے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک بار پھر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔