ایران اور اسرائیل کے ماضی کے تعلقات: ایک تاریخی جائزہ

8 / 100 SEO Score

رپورٹ: بین الاقوامی سیاسیات ڈیسک

 

1970 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے دوران کئی ریاستوں کے درمیان پس پردہ سفارتی سرگرمیاں جاری رہیں، جن میں ایران اور اسرائیل کے ممکنہ خفیہ روابط عالمی مباحثے کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

 

بین الاقوامی تجزیہ کار رائے جے ایلس ورتھ کے مطابق اس دور میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تیل، دفاعی ٹیکنالوجی، اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے متعلق غیر رسمی رابطے موجود تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معاملات زیادہ تر ایران کے اُس وقت کے خفیہ ادارے ساواک اور اسرائیلی ایجنسی موساد کے ذریعے طے پاتے تاکہ عرب ممالک سے تعلقات متاثر نہ ہوں۔

 

پس پردہ سفارتی طریقہ کار

 

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ممکنہ طور پر کچھ ایرانی نمائندے ترکی جیسے تیسرے ممالک کے ذریعے اسرائیل کا دورہ کرتے تھے، جہاں ان کے سفری کاغذات پر باقاعدہ مہر نہ لگائی جاتی تاکہ تعلقات کو خفیہ رکھا جا سکے۔

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران، اُس وقت کی حکومت کے تحت، خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف ممالک سے تکنیکی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جس میں بعض اوقات خفیہ معاہدات بھی شامل تھے۔ ان رابطوں کا مقصد صرف تجارتی یا سیکیورٹی نوعیت کا ہوتا، مگر ان کی تفصیلات خفیہ رکھی جاتیں۔

 

عالمی اثرات اور تبصرے

 

بہت سے مؤرخین کے مطابق یہ تعلقات ایک ایسے وقت میں قائم ہوئے جب ایران علاقائی طاقت بننے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور اسرائیل خطے میں اپنے اتحادی تلاش کر رہا تھا۔ البتہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد یہ تمام ممکنہ رابطے ختم ہو گئے اور ایران کی پالیسی میں مکمل تبدیلی آ گئی۔

 

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے تعلقات کی تاریخ کو جاننا نہایت اہم ہے تاکہ آج کے حالات کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ تاہم موجودہ دور میں ایران اور اسرائیل کے تعلقات کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو کھلے عام مخالف قرار دیتے ہیں۔

 

 

 

📌 نوٹ: یہ خبر تاریخی تناظر اور تحقیقی تجزیے کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ اس کا مقصد کسی بھی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ صرف معلوماتی پہلو اجاگر کرنا ہے۔

رپورٹ: بین الاقوامی سیاسیات ڈیسک

1970 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے دوران کئی ریاستوں کے درمیان پس پردہ سفارتی سرگرمیاں جاری رہیں، جن میں ایران اور اسرائیل کے ممکنہ خفیہ روابط عالمی مباحثے کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

بین الاقوامی تجزیہ کار رائے جے ایلس ورتھ کے مطابق اس دور میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تیل، دفاعی ٹیکنالوجی، اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے متعلق غیر رسمی رابطے موجود تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معاملات زیادہ تر ایران کے اُس وقت کے خفیہ ادارے ساواک اور اسرائیلی ایجنسی موساد کے ذریعے طے پاتے تاکہ عرب ممالک سے تعلقات متاثر نہ ہوں۔

پس پردہ سفارتی طریقہ کار

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ممکنہ طور پر کچھ ایرانی نمائندے ترکی جیسے تیسرے ممالک کے ذریعے اسرائیل کا دورہ کرتے تھے، جہاں ان کے سفری کاغذات پر باقاعدہ مہر نہ لگائی جاتی تاکہ تعلقات کو خفیہ رکھا جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران، اُس وقت کی حکومت کے تحت، خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف ممالک سے تکنیکی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جس میں بعض اوقات خفیہ معاہدات بھی شامل تھے۔ ان رابطوں کا مقصد صرف تجارتی یا سیکیورٹی نوعیت کا ہوتا، مگر ان کی تفصیلات خفیہ رکھی جاتیں۔

عالمی اثرات اور تبصرے

بہت سے مؤرخین کے مطابق یہ تعلقات ایک ایسے وقت میں قائم ہوئے جب ایران علاقائی طاقت بننے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور اسرائیل خطے میں اپنے اتحادی تلاش کر رہا تھا۔ البتہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد یہ تمام ممکنہ رابطے ختم ہو گئے اور ایران کی پالیسی میں مکمل تبدیلی آ گئی۔

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے تعلقات کی تاریخ کو جاننا نہایت اہم ہے تاکہ آج کے حالات کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ تاہم موجودہ دور میں ایران اور اسرائیل کے تعلقات کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو کھلے عام مخالف قرار دیتے ہیں۔

📌 نوٹ: یہ خبر تاریخی تناظر اور تحقیقی تجزیے کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ اس کا مقصد کسی بھی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ صرف معلوماتی پہلو اجاگر کرنا ہے۔

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔