بھارت نے اسرائیل کو ایران پر حملوں میں مدد دی — خطے میں کشیدگی کی نئی لہر

Oplus_16908288
4 / 100 SEO Score

نئی دہلی/تہران: سفارتی ذرائع اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت پر یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ اس نے حالیہ اسرائیلی حملوں میں ایران کے خلاف تکنیکی اور انٹیلیجنس مدد فراہم کی ہے۔ یہ دعویٰ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے اور ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائیوں کی دھمکیاں دی ہیں۔

 

کیا بھارت واقعی اسرائیلی مشن میں شامل تھا؟

 

بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق:

 

اسرائیل کی جانب سے ایران کے حساس علاقوں میں کیے گئے سلیکٹڈ ٹارگٹ حملے انتہائی جدید انٹیلیجنس پر مبنی تھے۔

 

یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی، جن میں بھارت کا ذکر بطور انٹیلیجنس شیئرنگ پارٹنر کیا جا رہا ہے۔

 

بھارتی میڈیا میں بھی کچھ رپورٹس منظر عام پر آئیں جن میں دفاعی ماہرین نے یہ اشارہ دیا کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان عسکری اشتراک روز بروز بڑھ رہا ہے۔

 

 

ایران کا ردعمل اور انتباہ

 

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے سخت موقف اپناتے ہوئے کہا ہے:

 

> “اگر بھارت جیسے ممالک اسرائیل کو خطے میں کارروائیوں کے لیے سہولت فراہم کرتے ہیں، تو انہیں بھی نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔”

 

 

 

ایرانی حکام نے یہ بھی کہا کہ وہ ان تمام ممالک کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو اسرائیل کو ایران کے خلاف عملی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

 

بھارت کا مؤقف؟

 

تاحال بھارتی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سرکاری تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ بھارت ہمیشہ سے اپنی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی پر زور دیتا رہا ہے اور ایران کے ساتھ معاشی و سفارتی تعلقات بھی رکھتا ہے۔

 

ماہرین کی رائے:

 

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل اور بھارت کے درمیان طویل عرصے سے سٹریٹیجک اور سکیورٹی تعاون جاری ہے، خاص طور پر سائبر سکیورٹی، انٹیلیجنس اور ڈرون ٹیکنالوجی کے شعبوں میں۔

 

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو بھارت کے لیے ایران جیسے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

 

 

خطے پر ممکنہ اثرات:

 

ایران اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ بڑھ سکتا ہے۔

 

مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی جنوبی ایشیا تک پھیل سکتی ہے۔

 

بھارت میں موجود شیعہ اقلیت میں بھی اضطراب پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

 

 

 

 

یہ معاملہ اگر مزید واضح ہوا تو عالمی سطح پر نئی سفارتی چپقلش کا باعث بن سکتا ہے، جس میں بھارت کو صفائی دینا پڑ سکتی ہے کہ وہ ایران اسرائیل تنازعے میں کس طرف کھڑا ہے۔

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔