ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: 242 مسافروں میں سے سیٹ نمبر 11A کا مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا — ہلاکتوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی

Oplus_16908288
7 / 100 SEO Score

دنیا بھر کو جھنجھوڑ دینے والے ایئر انڈیا کے ایک خوفناک حادثے نے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں صدمے کی لہر دوڑا دی ہے۔ بھارت کے شہر احمد آباد میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے میں ایئر انڈیا کی پرواز بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر، ٹیک آف کے فوراً بعد تباہ ہو گئی۔ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے، جن میں سے بیشتر ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم ایک مسافر کا معجزانہ طور پر بچ جانا پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

 

سیٹ نمبر 11A کا مسافر زندہ، باقی سب خاموش ہو گئے

 

حادثے میں زندہ بچ جانے والا واحد مسافر سیٹ نمبر 11A پر سوار برطانوی شہری وشواش کمار رمیش تھے۔ ان کا بیان حادثے کے ہولناک مناظر کی جھلک پیش کرتا ہے۔ وشواش نے ہسپتال کے بستر سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا:

 

> “ٹیک آف کے محض 30 سیکنڈ بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا، سب کچھ ہلنے لگا اور پھر طیارہ نیچے آ گرا۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں، آنکھ کھلی تو ہسپتال میں تھا۔”

 

 

 

حادثے کی مکمل تفصیل اور ردعمل

 

احمد آباد پولیس کے مطابق یہ حادثہ صبح 9:45 بجے پیش آیا، جب ایئر انڈیا کی فلائٹ AI-786 ممبئی سے لندن روانہ ہو رہی تھی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق طیارے نے جیسے ہی ٹیک آف کیا، تکنیکی خرابی کے باعث وہ پرواز برقرار نہ رکھ سکا اور رہائشی علاقے کے قریب ایک عمارت سے ٹکرا گیا۔ حادثے کی جگہ “ڈاکٹروں کے ہسپتال” کے قریب واقع ہے، جس سے نقصان مزید بڑھ گیا۔

 

ہلاک شدگان اور زخمیوں کی تفصیل

 

پولیس کے مطابق 204 لاشیں جائے حادثہ سے نکالی جا چکی ہیں

 

تقریباً 50 میڈیکل طلبہ اس وقت مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں

 

10 سے زائد افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے

 

 

مسافروں کی قومیت

 

ایئر انڈیا کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ طیارے میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد سوار تھے:

 

قومیت تعداد

 

بھارتی 169

برطانوی 53

پرتگالی 7

کینیڈین 1

دیگر 12

کل 242

 

 

حادثے کی ممکنہ وجہ: تکنیکی خرابی یا انسانی غلطی؟

 

اگرچہ حادثے کی اصل وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی، لیکن ایوی ایشن ماہرین نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا کہ ابتدائی شواہد کے مطابق طیارے کے “ونگ فلیپس” میں خرابی پیش آئی ہو سکتی ہے۔ ونگ فلیپس وہ پرزے ہوتے ہیں جو ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران طیارے کو توازن فراہم کرتے ہیں۔

 

ایئر سیفٹی ماہرین نے کہا کہ:

 

> “طیارہ ٹیک آف کے فوراً بعد زمین پر گر جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پرواز کے ابتدائی لمحات میں ہی کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔”

 

 

 

دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات

 

اس حادثے نے پوری دنیا کو افسردہ کر دیا ہے۔ مختلف عالمی رہنماؤں اور ممالک نے اظہارِ افسوس کیا ہے، جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، ترکی، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔

 

پاکستان کے وزیراعظم نے کہا:

“بھارتی عوام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم اس اندوہناک سانحے پر دلی تعزیت کرتے ہیں۔”

 

برطانوی ہائی کمیشن نے بھی متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ وہ برطانوی شہریوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔

 

 

زندہ بچنے والے مسافر کی اہم گواہی

 

وشواش کمار رمیش نے حادثے کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل بتاتے ہوئے کہا:

 

> “میں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی تھی، جیسے ہی زور دار دھماکہ ہوا، میں سیٹ سے اچھل گیا۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی، مگر پھر سب کچھ خاموش ہو گیا۔ مجھے لگا کہ میری زندگی ختم ہو چکی ہے۔”

 

 

 

انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے خود اپنا بورڈنگ پاس میڈیا کو دکھایا جس پر ان کا نام اور سیٹ نمبر 11A درج تھا۔ یہ ان کی موجودگی اور معجزانہ بچاؤ کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔

 

تحقیقات کا آغاز

 

حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں ایوی ایشن، پولیس اور انٹیلی جنس افسران شامل ہیں۔ ایئر انڈیا کا کہنا ہے کہ:

 

> “ہم متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور ہر ممکن قانونی و مالی امداد فراہم کریں گے۔”

 

 

 

نتیجہ: فلائٹ سیفٹی پر سوالیہ نشان

 

یہ حادثہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ بھارت کی ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے ایک وارننگ ہے۔ فلائٹ سیفٹی، تکنیکی جانچ اور عملے کی تربیت جیسے معاملات پر ایک مرتبہ پھر سوالات اٹھ گئے ہیں۔ زندہ بچ جانے والے واحد مسافر کا بیان پوری دنیا کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ ایوی ایشن کے شعبے میں معمولی کوتاہی بھی کیسے سیکڑوں جانیں نگل سکتی ہے۔

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔