پنجاب حکومت کا “صحت کارڈ ڈرامہ”: 440 ارب خرچ، نہ اسپتال بنے نہ نظام بچا!

9 / 100 SEO Score

لاہور – پنجاب حکومت کی جانب سے عوامی فلاح کے نام پر شروع کیے گئے “صحت کارڈ” پروگرام پر اب تک تقریباً 440 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہ منصوبہ عام آدمی کی فلاح کے بجائے نجی اسپتالوں کو نوازنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

 

💸 اربوں روپے، مگر فائدہ چند اداروں کو!

 

ماہرین کے مطابق اگر یہ خطیر رقم صرف اسپتالوں کی تعمیر پر خرچ کی جاتی تو:

 

50 کروڑ روپے میں ایک جدید 100 بستروں کا اسپتال بن سکتا تھا

 

440 ارب میں کم از کم 880 اسپتال بن سکتے تھے

 

دیہی اور شہری علاقوں میں مستقل صحت کی سہولیات قائم کی جا سکتی تھیں

 

 

مگر پنجاب حکومت نے بجائے اس کے، نجی اسپتالوں کو براہِ راست ادائیگیاں شروع کر دیں۔

 

🏥 صحت کارڈ یا اسپتالوں کی لوٹ مار؟

 

تحقیقات کے مطابق:

 

نجی اسپتالوں میں غیر ضروری آپریشنز کیے گئے

 

جعلی مریضوں کے ذریعے بوگس کلیمز کیے گئے

 

مریضوں سے چپکے سے اضافی فیس لی گئی

 

 

اس سب کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا بلکہ مریض بھی در بدر ہوتے رہے۔

 

⚠️ مالی بدانتظامی اور حکومتی غفلت

 

2022–23 کے بجٹ میں 125 ارب روپے رکھے گئے مگر صرف 31 ارب جاری ہوئے۔ 94 ارب روپے واجب الادا ہیں جس کے باعث:

 

کئی اسپتالوں نے صحت کارڈ پر مریضوں کو دیکھنے سے انکار کر دیا

 

لاکھوں افراد علاج سے محروم ہو گئے

 

 

📉 اگر یہی رقم عوامی ہسپتالوں پر لگتی؟

 

پنجاب کے ہر ضلع میں:

 

جدید مشینری اور ڈاکٹروں کی فراہمی

 

ICU، ایمرجنسی اور نرسنگ اسٹاف میں بہتری

 

دیہی علاقوں میں موبائل کلینکس کی سہولت

 

 

جیسے کئی منصوبے مکمل کیے جا سکتے تھے، جو آج تک محض دعوؤں کی حد تک محدود ہیں۔

 

📌 نتیجہ: پنجاب حکومت کا مہنگا اور ناکام تجربہ

 

پنجاب حکومت کے “صحت کارڈ” کو ریلیف اسکیم نہیں بلکہ وقتی اشتہار بازی قرار دیا جا رہا ہے۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود، نہ مستقل نظام بنا، نہ سرکاری اسپتال بہتر ہوئے۔ صرف نجی اسپتالوں کی جیبیں بھری گئیں، اور عوام اب بھی لائنوں میں کھڑے ہیں۔

 

عوامی حلقے سوال کر رہے ہیں:

 

> “کیا ہمیں صرف کارڈز بانٹنے والی حکومت چاہیے، یا وہ نظام جو بغیر کارڈ کے علاج دے؟”

 

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔