پنجاب میں پنچائیتی نظام کی واپسی: گھریلو تنازعات کے فوری حل کے لیے پنچایت بل 2025ء پیش

Oplus_16908288
5 / 100 SEO Score

پنجاب حکومت نے صوبے میں پنچائیتی نظام کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے “پنچایت بل 2025ء” کے نام سے نیا بل پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ اس بل کے تحت ہر ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر کمیونٹیز کو شامل کرتے ہوئے پنچایت کمیٹیاں قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جن کا مقصد گھریلو جھگڑوں، معمولی مالی تنازعات اور چھوٹے جرائم کا تیز تر حل فراہم کرنا ہے۔

 

بل کے مطابق، یہ کمیٹیاں صرف 30 دن کے اندر اندر شکایات پر فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔ ان کمیٹیوں کو گھریلو تشدد، جہیز کے جھگڑے، پانی کی تقسیم کے تنازعات، چوری، مارپیٹ اور وہ جرائم جن کی سزا 3 سال تک ہو، سمیت 28 اقسام کے معاملات سننے کا اختیار حاصل ہوگا۔

 

بل میں ہر ضلع میں “ڈسٹرکٹ کمیونٹی جسٹس کمیٹی” قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں 10 ارکان شامل ہوں گے، جن میں سے کم از کم 2 خواتین کا ہونا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر یونین کونسل یا شہری وارڈ میں ایک چھوٹی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں 15 سے 20 ارکان شامل ہوں گے اور ان میں کم از کم 10 فیصد خواتین کی نمائندگی لازم ہوگی۔

 

کمیٹی ارکان کا تعلق اسی علاقے سے ہوگا جہاں وہ خدمات انجام دیں گے اور یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ وہ کسی بدعنوانی یا سنگین جرم میں ملوث نہ ہوں۔ ان ارکان کی منظوری ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دی جائے گی، جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ان کمیٹیوں کے روزمرہ امور کی نگرانی کرے گا، جس کی نامزدگی ڈپٹی کمشنر کریں گے۔ ضلعی چیئرپرسن بھی ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر حکومت مقرر کرے گی۔

پنجاب حکومت نے صوبے میں پنچائیتی نظام کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے “پنچایت بل 2025ء” کے نام سے نیا بل پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ اس بل کے تحت ہر ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر کمیونٹیز کو شامل کرتے ہوئے پنچایت کمیٹیاں قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جن کا مقصد گھریلو جھگڑوں، معمولی مالی تنازعات اور چھوٹے جرائم کا تیز تر حل فراہم کرنا ہے۔

بل کے مطابق، یہ کمیٹیاں صرف 30 دن کے اندر اندر شکایات پر فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔ ان کمیٹیوں کو گھریلو تشدد، جہیز کے جھگڑے، پانی کی تقسیم کے تنازعات، چوری، مارپیٹ اور وہ جرائم جن کی سزا 3 سال تک ہو، سمیت 28 اقسام کے معاملات سننے کا اختیار حاصل ہوگا۔

بل میں ہر ضلع میں “ڈسٹرکٹ کمیونٹی جسٹس کمیٹی” قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں 10 ارکان شامل ہوں گے، جن میں سے کم از کم 2 خواتین کا ہونا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر یونین کونسل یا شہری وارڈ میں ایک چھوٹی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں 15 سے 20 ارکان شامل ہوں گے اور ان میں کم از کم 10 فیصد خواتین کی نمائندگی لازم ہوگی۔

کمیٹی ارکان کا تعلق اسی علاقے سے ہوگا جہاں وہ خدمات انجام دیں گے اور یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ وہ کسی بدعنوانی یا سنگین جرم میں ملوث نہ ہوں۔ ان ارکان کی منظوری ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دی جائے گی، جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ان کمیٹیوں کے روزمرہ امور کی نگرانی کرے گا، جس کی نامزدگی ڈپٹی کمشنر کریں گے۔ ضلعی چیئرپرسن بھی ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر حکومت مقرر کرے گی۔

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔