جب اسرائیلی طیارے خفیہ طور پر عرب ممالک کے ریڈار سے بچ کر نکل گئے

Oplus_16908288
9 / 100 SEO Score

تاریخ کی کتابوں میں کچھ ایسے آپریشنز درج ہیں جنہیں پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے — نہ صرف ان کی منصوبہ بندی بلکہ ان کے مکمل ہونے کے بعد سامنے آنے والے انکشافات بھی دنیا کے لیے چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جب اسرائیلی جنگی طیارے عرب ممالک کے ریڈار سسٹم کو دھوکہ دیتے ہوئے انتہائی خفیہ انداز میں کارروائی کے لیے نکلے۔

 

 

 

پسِ منظر: خفیہ فضائی مشن کا مقصد کیا تھا؟

 

1981 میں اسرائیل نے عراق میں واقع ایک نیوکلیئر ری ایکٹر کو نشانہ بنانے کے لیے ایک آپریشن ترتیب دیا، جسے بعد میں “آپریشن اوسیراک” کے نام سے جانا گیا۔ اس مشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ:

 

عراق کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے

 

اسرائیل کے “ممکنہ خطرات” کو وقت سے پہلے ختم کیا جا سکے

 

خفیہ انداز میں کارروائی مکمل کر کے عالمی ردِعمل سے بچا جا سکے

 

 

 

 

حیران کن حکمتِ عملی: عرب ممالک کے ریڈار نیٹ ورک کو کیسے چکما دیا گیا؟

 

اس مشن کی سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ اسرائیلی طیارے کئی عرب ممالک کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے عراقی ری ایکٹر تک پہنچے، مگر کہیں بھی ریڈار پر ظاہر نہیں ہوئے۔

 

یہ کیسے ممکن ہوا؟

 

🧠 خفیہ ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی:

 

تکنیک تفصیل

 

✈️ نچلی پرواز (Low Altitude Flying) طیاروں نے زمین سے محض 100 فٹ کی بلندی پر پرواز کی تاکہ ریڈار نہ پکڑ سکیں

🛰️ جامنگ سسٹم کچھ طیارے مخصوص ریڈار جامنگ سسٹم سے لیس تھے

🌒 رات کے وقت روانگی مشن کو رات کے وقت لانچ کیا گیا تاکہ مرئیت کم ہو

🗺️ غیر روایتی روٹ سعودی عرب، اردن اور دیگر عرب ممالک کے ریڈار کوریڈور سے بچتے ہوئے متبادل روٹ اختیار کیے گئے

 

 

 

 

طیارے اور پائلٹ: مشن کی تفصیلات

 

طیاروں کی مجموعی تعداد: 8 F-16 فائٹر جیٹس

 

معاون طیارے: 6 F-15 بطور کور

 

پائلٹوں کی تربیت: مہینوں تک صحرائی علاقوں میں مشقیں

 

مدتِ پرواز: 1000 کلومیٹر کا فاصلہ، بغیر کسی ایندھن بھرنے کے

 

 

 

 

نتائج: ایک ہدف، کئی ردِعمل

 

🎯 مشن کامیاب رہا

 

ری ایکٹر مکمل طور پر تباہ

 

عراق کو جوہری میدان میں برسوں پیچھے دھکیل دیا گیا

 

 

🌍 عالمی سطح پر ردِعمل

 

اقوام متحدہ کی سخت مذمت

 

عرب دنیا میں غم و غصہ

 

اسرائیل کا مؤقف: “ہم نے خطرے کو وقت پر ختم کیا”

 

 

 

 

ماہرین کی رائے: تکنیکی برتری یا انٹیلیجنس کی فتح؟

 

فضائی دفاع کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مشن نہ صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی کا نتیجہ تھا بلکہ زبردست انٹیلیجنس کوآرڈینیشن بھی اس میں شامل تھی۔

 

> “یہ آپریشن ثابت کرتا ہے کہ صرف ہتھیار نہیں، عقل اور حکمت بھی میدان مارتی ہے۔”

 

 

 

 

 

جدید دور میں ایسی حکمت عملی کا کیا امکان ہے؟

 

آج کے جدید ریڈار، مصنوعی سیارے (satellites) اور AI ٹریکنگ سسٹمز کے باوجود، خفیہ آپریشنز کی منصوبہ بندی اب بھی جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب لڑائی آسمان کے ساتھ ساتھ سائبر اسپیس میں بھی لڑی جا رہی ہے۔

 

 

 

نتیجہ

 

یہ واقعہ ایک یاد دہانی ہے کہ جنگیں صرف میدان میں نہیں، عقل اور خاموشی کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہیں۔ جب اسرائیلی طیارے عرب ریڈار سے بچ نکلے، تو دنیا نے محسوس کیا کہ جدید دور کی جنگیں نظر سے اوجھل ہو کر بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

تاریخ کی کتابوں میں کچھ ایسے آپریشنز درج ہیں جنہیں پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے — نہ صرف ان کی منصوبہ بندی بلکہ ان کے مکمل ہونے کے بعد سامنے آنے والے انکشافات بھی دنیا کے لیے چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جب اسرائیلی جنگی طیارے عرب ممالک کے ریڈار سسٹم کو دھوکہ دیتے ہوئے انتہائی خفیہ انداز میں کارروائی کے لیے نکلے۔

پسِ منظر: خفیہ فضائی مشن کا مقصد کیا تھا؟

1981 میں اسرائیل نے عراق میں واقع ایک نیوکلیئر ری ایکٹر کو نشانہ بنانے کے لیے ایک آپریشن ترتیب دیا، جسے بعد میں “آپریشن اوسیراک” کے نام سے جانا گیا۔ اس مشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ:

عراق کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے

اسرائیل کے “ممکنہ خطرات” کو وقت سے پہلے ختم کیا جا سکے

خفیہ انداز میں کارروائی مکمل کر کے عالمی ردِعمل سے بچا جا سکے

 

حیران کن حکمتِ عملی: عرب ممالک کے ریڈار نیٹ ورک کو کیسے چکما دیا گیا؟

اس مشن کی سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ اسرائیلی طیارے کئی عرب ممالک کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے عراقی ری ایکٹر تک پہنچے، مگر کہیں بھی ریڈار پر ظاہر نہیں ہوئے۔

یہ کیسے ممکن ہوا؟

🧠 خفیہ ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی:

تکنیک تفصیل

✈️ نچلی پرواز (Low Altitude Flying) طیاروں نے زمین سے محض 100 فٹ کی بلندی پر پرواز کی تاکہ ریڈار نہ پکڑ سکیں
🛰️ جامنگ سسٹم کچھ طیارے مخصوص ریڈار جامنگ سسٹم سے لیس تھے
🌒 رات کے وقت روانگی مشن کو رات کے وقت لانچ کیا گیا تاکہ مرئیت کم ہو
🗺️ غیر روایتی روٹ سعودی عرب، اردن اور دیگر عرب ممالک کے ریڈار کوریڈور سے بچتے ہوئے متبادل روٹ اختیار کیے گئے

 

طیارے اور پائلٹ: مشن کی تفصیلات

طیاروں کی مجموعی تعداد: 8 F-16 فائٹر جیٹس

معاون طیارے: 6 F-15 بطور کور

پائلٹوں کی تربیت: مہینوں تک صحرائی علاقوں میں مشقیں

مدتِ پرواز: 1000 کلومیٹر کا فاصلہ، بغیر کسی ایندھن بھرنے کے

 

نتائج: ایک ہدف، کئی ردِعمل

🎯 مشن کامیاب رہا

ری ایکٹر مکمل طور پر تباہ

عراق کو جوہری میدان میں برسوں پیچھے دھکیل دیا گیا

🌍 عالمی سطح پر ردِعمل

اقوام متحدہ کی سخت مذمت

عرب دنیا میں غم و غصہ

اسرائیل کا مؤقف: “ہم نے خطرے کو وقت پر ختم کیا”

 

ماہرین کی رائے: تکنیکی برتری یا انٹیلیجنس کی فتح؟

فضائی دفاع کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مشن نہ صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی کا نتیجہ تھا بلکہ زبردست انٹیلیجنس کوآرڈینیشن بھی اس میں شامل تھی۔

> “یہ آپریشن ثابت کرتا ہے کہ صرف ہتھیار نہیں، عقل اور حکمت بھی میدان مارتی ہے۔”

 

جدید دور میں ایسی حکمت عملی کا کیا امکان ہے؟

آج کے جدید ریڈار، مصنوعی سیارے (satellites) اور AI ٹریکنگ سسٹمز کے باوجود، خفیہ آپریشنز کی منصوبہ بندی اب بھی جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب لڑائی آسمان کے ساتھ ساتھ سائبر اسپیس میں بھی لڑی جا رہی ہے۔

نتیجہ

یہ واقعہ ایک یاد دہانی ہے کہ جنگیں صرف میدان میں نہیں، عقل اور خاموشی کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہیں۔ جب اسرائیلی طیارے عرب ریڈار سے بچ نکلے، تو دنیا نے محسوس کیا کہ جدید دور کی جنگیں نظر سے اوجھل ہو کر بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔