جب بنگلہ دیش بنا — اندرونی سازش، سیاسی غلطیاں یا عالمی پلان؟

Oplus_16908288
8 / 100 SEO Score

1971 کی جنگِ بنگال نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک خونریز باب ہے بلکہ یہ سوال بھی ہمیشہ زندہ رکھتی ہے: پاکستان کے ٹکڑے کیوں ہوئے؟

کیا یہ صرف مشرقی پاکستان کی عوامی ناراضگی تھی؟ یا پھر عالمی قوتوں کا کوئی خفیہ کھیل؟ یا ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے قومی وحدت کو پارہ پارہ کیا؟

 

اس مضمون میں ہم بنگلہ دیش کے قیام کی وجوہات کو تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی تناظر میں غیر جانبداری سے بیان کریں گے، تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ قصور کس کا تھا؟

 

 

 

بنگال اور پاکستان: ایک تاریخی پس منظر

 

قیامِ پاکستان کے وقت مشرقی بنگال نے سب سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ کو دیے تھے۔ یہ علاقہ مسلم اکثریتی تھا، مگر ثقافتی و لسانی طور پر مغربی پاکستان سے بالکل مختلف۔

 

اہم نکات:

 

مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی

 

دونوں حصے ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھے

 

مشرقی بنگال کا لسانی، ثقافتی و اقتصادی مزاج مختلف تھا

 

 

 

 

1. سیاسی غلطیاں — پہلا وار اندر سے

 

بنگالی زبان کا تنازع

 

قیامِ پاکستان کے بعد جب اردو کو واحد قومی زبان بنانے کا اعلان ہوا، تو مشرقی پاکستان میں شدید ردِعمل سامنے آیا۔

“میری زبان، میری شناخت” کا نعرہ بنگلہ عوامی تحریک بن گیا۔

 

1954 کا انتخاب

 

جناح کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کی مقبولیت مشرقی پاکستان میں تیزی سے کم ہوئی۔ 1954 کے صوبائی انتخابات میں عوامی لیگ اور دوسری جماعتوں نے بھاری اکثریت حاصل کی، مگر ان کی حکومت کو جلد ہی برخاست کر دیا گیا۔

 

 

 

2. طاقت کا ارتکاز — مرکز بمقابلہ مشرق

 

اقتصادی ناانصافی

 

مشرقی پاکستان قومی آمدنی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا تھا (جیسے جُوٹ اور چاول کی برآمد) لیکن سرمایہ کاری اور ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ مغربی پاکستان کو جاتا تھا۔

 

فوج میں عدم نمائندگی

 

پاکستان کی فوج اور بیوروکریسی میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔

 

 

 

3. 1970 کا الیکشن — ایک فیصلہ کن موڑ

 

شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے 1970 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 162 میں سے 160 نشستیں جیتیں۔

اس کا مطلب تھا کہ عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کا حق حاصل تھا۔

 

مگر مغربی پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے طاقت عوامی لیگ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔

 

یحییٰ خان کی ہچکچاہٹ

 

صدر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا، جسے مشرقی پاکستان میں “جمہوریت کا قتل” سمجھا گیا۔

 

 

 

4. آپریشن سرچ لائٹ — بارود کی چنگاری

 

25 مارچ 1971 کو پاکستانی فوج نے ڈھاکہ، چٹاگانگ اور دیگر علاقوں میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا، جس میں مکتی باہنی کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی گئیں۔

یہ آپریشن بعد میں مشرقی پاکستان میں بغاوت کو مزید بھڑکانے کا سبب بن گیا۔

 

 

 

5. بھارتی مداخلت — بیرونی سازش؟

 

مکتی باہنی کی پشت پناہی

 

بھارت نے مشرقی پاکستان کے باغی گروپ “مکتی باہنی” کو تربیت، اسلحہ اور پناہ گاہیں فراہم کیں۔

بھارتی میڈیا اور عالمی پروپیگنڈا نے پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔

 

3 دسمبر 1971 — جنگ کا آغاز

 

پاکستان نے بھارت کے خلاف جنگ چھیڑ دی، جس کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں باقاعدہ فوجی چڑھائی کر دی۔

 

16 دسمبر 1971 — سقوطِ ڈھاکہ

 

ڈھاکہ میں موجود پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

93 ہزار سے زائد فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔

 

 

 

عالمی ردِعمل — خاموش تماشائی

 

اقوام متحدہ کی خاموشی

 

اقوامِ متحدہ نے اس بحران میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کیا۔

امریکہ اور چین پاکستان کی حمایت ضرور کر رہے تھے مگر صرف سفارتی حد تک۔

 

روس کا کردار

 

سوویت یونین نے بھارت کی کھل کر حمایت کی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ویٹو پاور استعمال کیا۔

 

 

 

یہ شکست تھی یا سبق؟

 

فوجی شکست

 

پاکستان کو مشرقی حصے کا جغرافیہ کھونے کے ساتھ ساتھ فوجی اعتبار سے شدید دھچکا لگا۔

 

نفسیاتی شکست

 

قوم کے اتحاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، عوام میں مایوسی اور قیادت پر بداعتمادی پیدا ہوئی۔

 

 

 

💡 سیکھنے کے نکات

 

سبق تفصیل

 

قومی یکجہتی زبان، ثقافت اور سیاست میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے

جمہوری اقدار عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا قومی استحکام کی بنیاد ہے

خارجہ پالیسی عالمی طاقتوں سے تعلقات کا توازن ضروری ہے

سیاسی برداشت اختلافات کو بندوق کے ذریعے نہیں بلکہ میز پر حل کیا جانا چاہیے

 

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔