لاہور ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ: نادرا کو شناختی کارڈ متعلق اہم فیصلہ

Oplus_16908288
8 / 100 SEO Score

شناختی کارڈ ایک شہری کی پہچان، قانونی حیثیت اور بنیادی حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے شناختی کارڈز بلاک کرنے کی پالیسی شدید تنقید کی زد میں رہی ہے۔ بہت سے شہریوں کو بغیر کسی وضاحت یا نوٹس کے ان کے شناختی کارڈز معطل یا بلاک کر دیے گئے، جس سے نہ صرف ان کی شناخت بلکہ زندگی کے دیگر تمام معاملات متاثر ہوئے۔

 

ایسے میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک تاریخی اور عوام دوست فیصلہ دیتے ہوئے نادرا کو بغیر قانونی کارروائی اور مناسب سماعت کے شناختی کارڈز بلاک کرنے سے روک دیا ہے۔

 

 

 

عدالت کا فیصلہ: ایک آئینی موڑ

 

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوار الحق پنوں نے ایک پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے نادرا کی پالیسی کو آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10-A اور 25 کی خلاف ورزی قرار دیا۔

 

فیصلے کے اہم نکات:

 

1. نادرا کو اختیار نہیں کہ وہ کسی شہری کا شناختی کارڈ محض شک کی بنیاد پر بلاک کرے۔

 

 

2. شہری کو صفائی کا پورا موقع دیے بغیر شناختی حیثیت ختم کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

 

 

3. شناختی کارڈ کے بغیر شہری تعلیم، صحت، روزگار، بینکنگ اور دیگر سہولیات سے محروم ہو جاتے ہیں، جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔

 

 

 

 

 

متاثرہ شہریوں کی آواز

 

یہ فیصلہ ایسے ہزاروں شہریوں کے لیے ایک ریلیف بن کر آیا ہے جو شناختی کارڈ بلاک ہونے کے بعد اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔

 

ایک شہری کا بیان:

 

“میرا شناختی کارڈ بغیر وجہ کے بلاک ہوا، میں نے دو سال تک عدالتوں کے چکر لگائے، اب کم از کم امید پیدا ہوئی ہے کہ ہمیں سنا جا رہا ہے۔”

 

 

 

نادرا کی پالیسی پر تنقید

 

نادرا کے پاس پاکستانی شہریوں کا انتہائی حساس ڈیٹا موجود ہوتا ہے، اور اس ادارے کی طرف سے کسی شخص کی شہریت پر شک ظاہر کرنا نہ صرف تشویش کا باعث ہوتا ہے بلکہ کئی بار نسلی یا علاقائی تعصب کا رنگ بھی اختیار کر جاتا ہے۔

 

ماہرین کی رائے:

 

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ:

 

> “نادرا کو تحقیقاتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا، ان کا کام صرف ڈیٹا کا اندراج ہے، سزا یا شہریت منسوخ کرنا عدالت کا کام ہے۔”

 

 

 

 

 

آئینی حقوق کی خلاف ورزی

 

شناختی کارڈ بلاک ہونے کی صورت میں ایک شہری:

 

بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا

 

موبائل سم رجسٹر نہیں کرا سکتا

 

شناخت سے محروم ہو جاتا ہے

 

بیرون ملک سفر یا پاسپورٹ سے محروم ہو جاتا ہے

 

حتیٰ کہ میت کی تدفین یا بچوں کے داخلے تک میں مسائل پیدا ہوتے ہیں

 

 

یہ تمام صورتحال آئینی اور انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جو اس فیصلے کے بعد رکنے کی امید ہے۔

 

 

 

عدالت نے کیا ہدایت جاری کی؟

 

نادرا ہر بلاکنگ سے قبل شہری کو تحریری نوٹس دے

 

شہری کو سننے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے

 

اگر کسی کی شہریت پر سوال ہو، تو اسے قانونی فورم کے ذریعے حل کیا جائے

 

کسی بھی شہری کو شناختی حیثیت سے محروم کرنا صرف عدالت کے حکم سے ممکن ہو

 

 

 

 

عوامی سطح پر ردِعمل

 

عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر شہریوں نے خوشی کا اظہار کیا:

 

> “آخرکار کسی نے آواز سنی، شناختی کارڈ بلاک ہونا ہماری زندگی روک دیتا ہے۔”

 

 

 

> “یہ فیصلہ نادرا کے اختیارات کو قانونی دائرے میں رکھنے کے لیے ضروری تھا۔”

 

 

 

 

 

مستقبل کے لیے اثرات

 

پہلو اثر

 

عوامی اعتماد نادرا کی شفافیت میں اضافہ ہوگا

قانونی حدود اداروں کو قانون سے تجاوز کی اجازت نہیں ہوگی

شہری تحفظ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی ہوگا

عدالتی وقار عدالت کے کردار پر اعتماد بڑھے گا

 

 

 

 

حکومت اور نادرا کا ممکنہ مؤقف

 

اب تک نادرا نے باضابطہ طور پر عدالت کے اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا، تاہم ذرائع کے مطابق نادرا اس فیصلے کے خلاف اپیل پر غور کر رہا ہے۔

حکومت کے لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ وہ نادرا کے اختیارات کا ازسرِنو جائزہ لے اور اس ادارے کو شفاف، جوابدہ اور قانون کا پابند بنائے۔

 

 

 

نتیجہ

 

لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ محض ایک قانونی فیصلہ نہیں بلکہ انسانی وقار، آئینی بالادستی اور شہری تحفظ کی طرف ایک عملی قدم ہے۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ریاستی ادارے حدود سے تجاوز کریں تو عدالتیں عوام کے حق میں آواز بلند کرنے سے دریغ نہیں کرتیں۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔