علاقہ لرز اٹھا، عوام میں خوف و ہراس کی فضا
مظفرگڑھ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے نہ صرف مقامی لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا بلکہ یہ پورے جنوبی پنجاب میں مویشی چوری کی سب سے بڑی واردات کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، تقریباً 30 ڈاکوؤں پر مشتمل ایک مسلح گروہ نے ایک دیہی علاقے پر دھاوا بول کر 180 سے زائد بھینسیں چوری کر لیں اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
📌 واقعہ کی تفصیلات
یہ واردات مظفرگڑھ کی حدود میں واقع ایک بڑے مویشی فارم پر رات کے وقت کی گئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق ڈاکوؤں نے پہلے علاقے کا راستہ بند کیا، پھر اسلحے کے زور پر فارم کے چوکیداروں اور مزدوروں کو یرغمال بنایا۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس منظم حملے کے دوران ایک ایک کر کے بھینسوں کو ٹرکوں میں بھر کر لے جایا گیا۔
متاثرہ افراد کے مطابق، یہ تمام بھینسیں دودھ دینے والی تھیں اور ان کی مالیت کروڑوں روپے میں بنتی ہے۔
—
👥 ڈاکوؤں کی شناخت اور ممکنہ گینگ
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس واردات میں ملوث ڈاکوؤں کا تعلق بوسن گینگ اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں سے ہے، جو جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔ یہ گینگ اس سے پہلے بھی چھوٹی موٹی چوریوں میں ملوث رہے ہیں، مگر اس بار کی واردات نہایت منظم، بڑی اور خوفناک تھی۔
متعدد گواہوں نے بتایا کہ ڈاکو جدید ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ وائرلیس سسٹمز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ واردات کسی عام چوری کا معاملہ نہیں بلکہ ایک پیشہ ور مجرمانہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
—
👮 پولیس کی کارروائی
مظفرگڑھ پولیس نے واردات کی اطلاع ملتے ہی علاقے میں ناکہ بندی کر دی اور تفتیشی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPO) کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ:
> “یہ ایک سنگین اور منظم جرائم کا واقعہ ہے، ہم نے اسپیشل ٹیمیں تشکیل دے کر علاقے میں سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔”
پولیس نے علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز، مقامی افراد کے بیانات، اور موبائل لوکیشنز کی مدد سے تفتیش کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ قریبی اضلاع اور تحصیلوں میں بھی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
—
🐄 متاثرہ کسانوں کی فریاد
متاثرہ کسانوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا:
> “یہ صرف جانور نہیں تھے، یہ ہمارا روزگار تھا۔ ہم پر قرضے چڑھے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت نے فوری مدد نہ کی تو ہم برباد ہو جائیں گے۔”
کسانوں نے حکومتِ پنجاب سے فوری مالی امداد اور مجرموں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسے واقعات کو نہ روکا گیا تو دیہی معیشت مکمل طور پر مفلوج ہو جائے گی۔
—
📉 اقتصادی و معاشرتی اثرات
ایسی وارداتوں کا اثر صرف چند افراد پر نہیں بلکہ مکمل زراعتی اور دیہی معیشت پر پڑتا ہے۔ 180 بھینسوں کا ایک ساتھ چوری ہو جانا:
دودھ سپلائی میں نمایاں کمی کا سبب بنے گا
چھوٹے کسانوں کی مالی بربادی
مقامی بازاروں میں دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ
دیہی علاقوں میں خوف اور بے یقینی کی فضا
—
🔍 ماضی کی وارداتوں سے موازنہ
یہ پہلا موقع نہیں کہ مظفرگڑھ یا جنوبی پنجاب میں مویشی چوری کی واردات ہوئی ہو۔ گزشتہ سال بھی ڈیرہ غازی خان میں 70 کے قریب جانور ایک رات میں چوری کیے گئے تھے، مگر پولیس نے ان کا سراغ نہ لگا سکی۔ اب کی بار واردات کا پیمانہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
—
🔐 حکومت سے مطالبہ
عوامی حلقے، کسان تنظیمیں اور شہری سوسائٹی نے چیف منسٹر پنجاب، آئی جی پنجاب پولیس اور محکمہ لائیو اسٹاک سے مطالبہ کیا ہے کہ:
مجرموں کو فوری گرفتار کیا جائے
کسانوں کو مالی امداد دی جائے
مویشی فارموں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس پیٹرولنگ کا نظام قائم کیا جائے
جنوبی پنجاب میں جانوروں کی ٹریسنگ کے لیے ڈیجیٹل ریکارڈ کا آغاز کیا جائے
—
📊 متاثرہ اشیاء کی تفصیل (تقریبی اندازے)
جانوروں کی قسم تعداد اوسط قیمت فی جانور کل مالیت
دودھ دینے والی بھینسیں 180 2,00,000 روپے 3 کروڑ 60 لاکھ روپے















Leave a Reply