نیوکلیئر ری ایکٹر کی خریداری کا خفیہ معاہدہ: عالمی پابندیوں سے بچ کر کامیابی

Oplus_16908288
8 / 100 SEO Score

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ میں بعض فیصلے ایسے بھی تھے جو بظاہر ناممکن لگتے تھے، مگر باہمت قیادت اور زیرک حکمتِ عملی کی بدولت کامیاب ہوئے۔ ان میں سب سے دلچسپ اور اہم مرحلہ تھا نیوکلیئر ری ایکٹر کی خفیہ خریداری — وہ معاہدہ جو عالمی پابندیوں، خفیہ نگرانی اور سفارتی دباؤ سے بچتے ہوئے مکمل ہوا۔

 

یہ معاہدہ نہ صرف تکنیکی بلکہ سفارتی سطح پر بھی پاکستان کی ایک بڑی کامیابی مانا جاتا ہے، جس کی بنیاد 1970 کی دہائی میں رکھی گئی اور جس کے اثرات 1998 کے ایٹمی دھماکوں تک محیط رہے۔

 

 

 

پس منظر: عالمی سیاست اور نیوکلیئر رسائی کی جنگ

 

1970 کی دہائی میں دنیا میں سرد جنگ کا زور تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین نیوکلیئر اسلحے کی دوڑ میں مصروف تھے، اور اقوامِ متحدہ کے تحت بننے والا معاہدہ NPT (Non-Proliferation Treaty) دنیا کو مزید ایٹمی طاقتوں میں تقسیم ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔

 

پاکستان نے NPT پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی خودمختار ایٹمی پالیسی برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ یہی انکار بعد میں پاکستان کو کئی پابندیوں اور بین الاقوامی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کا سبب بنا۔

 

 

 

خفیہ معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

 

بھارت نے 1974 میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے پاس دو ہی راستے تھے:

 

1. دفاعی طور پر کمزور رہنا

 

 

2. خفیہ طور پر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا

 

 

 

پاکستان نے دوسرا راستہ چُنا۔ مگر کھلے عام نیوکلیئر ٹیکنالوجی خریدنا ناممکن تھا کیونکہ مغربی ممالک پاکستان پر شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں خفیہ معاہدے اور غیر روایتی ذرائع واحد حل بن گئے۔

 

 

 

معاہدے کی تفصیلات: کہانی کہوٹہ سے پہلے کی

 

پاکستان کو ایک ایسا ریسرچ نیوکلیئر ری ایکٹر درکار تھا جو سائنسدانوں کو تربیت دے سکے اور ابتدائی تجربات کی بنیاد بن سکے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان نے کئی ممالک سے رابطے کیے، جن میں:

 

فرانس

 

کینیڈا

 

بیلجیم

 

جرمنی

 

نیدرلینڈز

 

 

فرانس نے ابتدائی طور پر رضامندی ظاہر کی اور ایک 70 میگا واٹ کا ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی، مگر عالمی دباؤ کے بعد فرانس نے معاہدہ منسوخ کر دیا۔

 

اسی دوران پاکستان نے کینیڈا سے 1960 کی دہائی میں خریدا گیا پہلا ری ایکٹر (Kanupp) بھی برقرار رکھا، مگر اس کی استعداد محدود تھی۔

 

 

 

کہوٹہ کے لیے یورینیم افزودگی

 

ری پروسیسنگ پلانٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کے ذریعے یورینیم افزودگی کا راستہ چُنا۔ اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار کلیدی تھا، جو مغرب میں کام کر چکے تھے اور حساس سینٹری فیوج ڈیزائن کی معلومات پاکستان لانے میں کامیاب رہے۔

 

یہ سارا نیٹ ورک خفیہ رکھا گیا۔ مشینری، پرزے، اور ری ایکٹر کے مختلف اجزاء مختلف کمپنیوں اور ناموں کے تحت درآمد کیے گئے تاکہ کسی بھی انٹیلیجنس ایجنسی کو براہ راست علم نہ ہو سکے۔

 

 

 

عالمی دباؤ: امریکہ، IAEA اور سفارتی محاذ

 

پاکستان کو روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سخت اقدامات کیے:

 

ایکسپورٹ کنٹرول قوانین سخت کر دیے گئے

 

پاکستان کو IAEA کی اضافی نگرانی میں لانے کی کوشش کی گئی

 

مالی اور عسکری امداد بند کرنے کی دھمکیاں دی گئیں

 

 

مگر پاکستان نے اپنی سفارتی مہارت سے اس تمام دباؤ کو پسِ پشت ڈالا۔ چین، لیبیا اور دیگر مسلم ممالک سے تعاون حاصل کیا، اور سفارتی محاذ پر مستقل مزاحمت کے ذریعے ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔

 

 

 

نتیجہ: پاکستان کی ایٹمی خودمختاری

 

آخر کار، 28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ خفیہ معاہدے، چھپے ہوئے پرزے، سائنسدانوں کی قربانیاں، اور سفارتی جدوجہد آخرکار کامیاب ہو گئی۔

 

یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر وہ نیوکلیئر ری ایکٹر خفیہ معاہدے کے تحت حاصل نہ کیا جاتا، تو شاید پاکستان کا ایٹمی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔

 

 

 

اہم نکات

 

پہلو تفصیل

 

مقصد نیوکلیئر ریسرچ اور توانائی میں خود کفالت

دشواریاں NPT دباؤ، امریکی مخالفت، مالی مشکلات

مددگار ممالک چین، لیبیا، نیدرلینڈز

ادارے PAEC، KRL

خفیہ طریقے پرزوں کی اسمگلنگ، کوڈ نام، جعلی کمپنیوں کے ذریعے خریداری

 

 

 

 

نتیجہ

 

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی اصل کامیابی صرف دھماکے نہیں تھے، بلکہ وہ منصوبہ بندی، رازداری، اور غیر معمولی تدبر تھا جو ان خفیہ معاہدوں اور خریداریوں میں جھلکتا ہے۔

 

یہ کامیابی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومی مفاد میں جرات مند فیصلے ہی تاریخ کا رُخ موڑ سکتے ہیں۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔