تمہید: ایک خاموش انقلاب کی شروعات
1974 کی ایک دوپہر، جنوبی پنجاب کے شہر ملتان کی فضا میں گرمی اور سیاسی کشیدگی دونوں اپنے عروج پر تھیں۔ بھارتی ایٹمی دھماکوں نے پورے خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اسی پس منظر میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک انتہائی خفیہ اجلاس بلایا — جسے آج تاریخ “ملتان کانفرنس” کے نام سے یاد کرتی ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے اپنے دفاعی مستقبل کا تعین کیا، اور ایٹمی پروگرام پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا۔
—
اجلاس کا پس منظر: بھارت کا دھماکہ اور پاکستان کا ردِ عمل
18 مئی 1974 کو بھارت نے راجستھان کے علاقے پوکھران میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس واقعے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور پاکستان کے ساتھ تاریخی دشمنی کے تناظر میں یہ دھماکہ پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ بن گیا۔
وزیرِ اعظم بھٹو نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ پاکستان کو بھی اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کی ضرورت ہے۔
—
ملتان اجلاس: کون شامل تھا؟
جون 1974 میں ملتان کے گورنر ہاؤس میں ہونے والا اجلاس مکمل طور پر خفیہ تھا۔ اجلاس میں ملک کے نامور سائنسدان، دفاعی ماہرین، اور انٹیلیجنس اداروں کے اعلیٰ افسران موجود تھے۔ ان میں شامل تھے:
ڈاکٹر منیر احمد خان (چیئرمین PAEC)
دیگر ایٹمی سائنسدان
وزارتِ دفاع اور خارجہ کے نمائندے
ذوالفقار علی بھٹو نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا:
> “ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔”
یہ الفاظ محض سیاسی نعرہ نہیں تھے، بلکہ ایک قومی عزم کی شکل اختیار کر چکے تھے۔
—
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار
حالانکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اُس وقت تک پاکستان میں باقاعدہ شامل نہیں ہوئے تھے، لیکن ملتان اجلاس کی بنیاد پر بننے والے نیوکلیئر پروگرام نے بعد میں ان کے لیے میدان ہموار کیا۔
چند سال بعد، جب بھٹو حکومت نے یورینیم افزودگی کے ذریعے بم کی تیاری کی راہ اپنائی، تو ڈاکٹر اے کیو خان کو نیدرلینڈ سے پاکستان لایا گیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ملتان اجلاس وہ پہلا پتھر تھا جس پر پاکستان کا پورا ایٹمی قلعہ تعمیر ہوا۔
—
ملتان اجلاس کے بعد اقدامات
ملتان اجلاس کے فوری بعد:
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کو ایٹمی پروگرام کی ذمہ داری دی گئی
خفیہ مقامات پر تحقیقاتی مراکز قائم کیے گئے
بیرونِ ملک سے ایٹمی ٹیکنالوجی اور ماہرین کی تلاش شروع ہوئی
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی گئی
یہ تمام اقدامات اُس فیصلے کا تسلسل تھے جو ملتان کے اس خاموش کمرے میں کیا گیا تھا۔
—
چیلنجز: عالمی دباؤ اور اندرونی مشکلات
پاکستان کو اس سفر میں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا:
عالمی سطح پر پابندیاں لگائی گئیں
مغربی ممالک نے سائنسدانوں پر نظر رکھنا شروع کر دی
اندرون ملک وسائل کی کمی تھی
لیکن پاکستان نے ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کیا، اور 1998 میں چاغی کے پہاڑوں کو لرزا کر دشمنوں کو واضح پیغام دے دیا کہ پاکستان اب ایٹمی طاقت ہے۔
—
نتیجہ: ملتان سے چاغی تک کا سفر
ملتان کانفرنس محض ایک اجلاس نہیں، بلکہ ایک قومی تاریخ کا موڑ تھا۔ اگر وہ فیصلہ نہ ہوتا تو شاید آج پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک کمزور ملک کے طور پر جانا جاتا۔
یہ اجلاس آج بھی ہماری قومی سلامتی کے لیے مشعل راہ ہے، جس نے ہمیں خودمختار دفاعی پالیسی اپنانے کا حوصلہ دیا۔
—
اہم نکات:
پہلو تفصیل
مقام ملتان، گورنر ہاؤس
تاریخ جون 1974
فیصلہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنا
سربراہی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو
اہم ادارے PAEC، بعد میں KRL
انجام 1998 میں کامیاب ایٹمی دھماکے















Leave a Reply