پاکستان کا ایٹمی پروگرام کئی دہائیوں پر محیط ایک خفیہ مگر عظیم قومی منصوبہ ہے، اور اس کا مرکزی کردار تھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) ایک ایسا ادارہ ہے جس نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔ یہ ادارہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کا ضامن بنا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر تسلیم کروایا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کہوٹہ کا یہ خفیہ منصوبہ کیسے ممکن ہوا؟ کیسے ایک ترقی پذیر ملک نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ایٹمی طاقت حاصل کی؟
—
کہانی کا آغاز
1974 میں بھارت نے “پوکھران” کے مقام پر پہلا ایٹمی دھماکہ کیا، جسے “سمائلنگ بدھا” کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی الفاظ میں کہا:
> “ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے!”
یہ اعلان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بنا۔
—
عبدالقدیر خان کا منظرِ عام پر آنا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس وقت یورپ میں یورینیم افزودگی (Uranium Enrichment) کے پروگرام سے منسلک تھے۔ انہوں نے پاکستان کو خط کے ذریعے اپنی خدمات پیش کیں۔ بھٹو نے فوراً انہیں بلایا اور قومی سلامتی کے اس مشن میں شامل کر لیا۔
انہوں نے 1976 میں کہوٹہ کے مقام پر ایک خفیہ تنصیب کی بنیاد رکھی — جسے آج KRL کہا جاتا ہے۔
—
کہوٹہ: خفیہ مقام، خفیہ مشن
کہوٹہ راولپنڈی سے 50 کلومیٹر دور ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں ایک ایسی تنصیب قائم کی گئی جہاں سینٹری فیوجز لگا کر یورینیم کو ہائی گریڈ میں تبدیل کیا جاتا تھا۔
سیکیورٹی:
مکمل فوجی نگرانی
بیرونی دنیا سے مکمل علیحدگی
عملے کے فون، مراسلات، ہر چیز پر کنٹرول
یہ منصوبہ سی آئی اے، موساد، را، ایم آئی 6 سمیت کئی خفیہ ایجنسیوں سے بھی مخفی رہا۔
—
تکنیکی کامیابیاں
کہوٹہ میں لگائے گئے سینٹری فیوجز ایک بڑے چیلنج تھے۔ پاکستان نے یہ ٹیکنالوجی غیر روایتی ذرائع سے حاصل کی، لیکن KRL نے اسے مقامی سطح پر ڈیزائن اور تیار کیا۔
اہم سنگ میل:
سینٹری فیوج زڈیزائن میں خود کفالت
ہائی اسپیڈ روٹری مشینیں
میزائل کے لیے ضروری ٹیکنالوجی میں پیش رفت
—
اندرونی خطرات اور وفاداری کا امتحان
کہوٹہ کے کئی سائنس دانوں کو بیرونی طاقتوں کی جانب سے رشوت، جاب آفرز، اور دھمکیاں دی گئیں، لیکن پاکستانی سائنسدانوں نے اپنی وفاداری قائم رکھی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک بار انکشاف کیا:
> “ہماری ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی تھی، لیکن ہم نے اپنے ملک کو سرپرائز دینے کا عزم کر رکھا تھا۔”
—
1998 کا وہ تاریخی دن
28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا نے تسلیم کیا کہ:
> پاکستان اب ناقابلِ تسخیر ہے۔
یہ سب کچھ ممکن ہوا — کہوٹہ کی برسوں کی خفیہ محنت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محبِ وطن سائنسدانوں کی وجہ سے۔
—
بین الاقوامی دباؤ اور پابندیاں
کہوٹہ پروگرام پر ہمیشہ عالمی دباؤ رہا۔ امریکہ نے کئی بار پاکستان کو پابندیوں کی دھمکیاں دیں، یہاں تک کہ:
ڈاکٹر اے کیو خان کو گرفتار کرنے کی سازشیں
KRL پر اقتصادی پابندیاں
چند پاکستانی سائنس دانوں پر سفر کی پابندی
مگر یہ دباؤ پاکستان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکا۔
—
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار اور اعتراف
پاکستانی قوم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسنِ پاکستان کا لقب دیا۔ ان کی قیادت میں KRL نے ایک ایسا نظام بنایا جو خود انحصاری، دفاع، اور طاقت کا استعارہ بن گیا۔
—
کہوٹہ کی موجودہ حالت
2025 میں، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز اب صرف جوہری پروگرام ہی نہیں بلکہ دفاعی ٹیکنالوجی، خلائی تحقیق، اور دیگر سائنسی منصوبوں میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔
—
تنقید اور تنازعات
کچھ مغربی حلقے KRL اور ڈاکٹر خان پر ٹیکنالوجی پھیلانے کا الزام لگاتے رہے۔ پاکستان نے اس کی ہمیشہ سختی سے تردید کی۔ 2004 میں ڈاکٹر خان کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا، جس پر قوم میں شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔
بعد ازاں، حکومتِ وقت نے انہیں معافی اور بحالی دی، لیکن دنیا نے ہمیشہ ان کے کردار کو مشکوک نگاہ سے دیکھا۔
—
نتیجہ: قوم کا فخر
کہوٹہ کا یہ خفیہ منصوبہ محض ایک فیکٹری نہیں تھا، یہ قوم کے خواب، غیرت، اور بقا کی علامت ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت اور ہزاروں انجینئرز، سائنسدانوں اور فوجی اہلکاروں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ آج پاکستان دفاعی طور پر ناقابلِ تسخیر ہے۔















Leave a Reply