17 اگست 1988 کی دوپہر پاکستان کی تاریخ کا وہ لمحہ ثابت ہوئی، جب ایک غیر معمولی واقعہ نے ملکی قیادت کے مرکز کو لرزا کر رکھ دیا۔ بہاولپور کے قریب ایک سی-130 طیارہ گر کر تباہ ہو گیا، جس میں پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق سمیت اہم عسکری اور سفارتی شخصیات سوار تھیں۔
یہ حادثہ محض ایک سانحہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا واقعہ جس نے ملکی، علاقائی اور عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 37 برس گزرنے کے بعد بھی اس واقعے کے کئی پہلو تشنہٴ تحقیق ہیں۔
—
حادثے کی مختصر روداد
17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق نے بہاولپور میں ایک فوجی مشق کا معائنہ کیا۔ ان کے ہمراہ اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمن، امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔ واپسی پر یہ تمام افراد C-130 طیارے میں سوار ہوئے، جو بہاولپور سے راولپنڈی جا رہا تھا۔
صرف چند منٹ کی پرواز کے بعد طیارہ اچانک زمین بوس ہو گیا۔ تمام سوار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
—
طیارہ حادثے کی تحقیقات
حادثے کے فوری بعد پاکستانی فوج اور حکومت نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ امریکہ، جس کے سفیر بھی حادثے میں ہلاک ہوئے، نے بھی اپنی سطح پر تحقیقاتی ٹیم بھیجی۔
پاکستان کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں حادثے کی تکنیکی خرابی کو ممکنہ وجہ قرار دیا گیا، تاہم کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہ آیا۔
امریکی ٹیم نے بھی اپنی رپورٹ میں کسی دھماکے کے شواہد نہیں دیے، مگر “ممکنہ فاؤل پلے” کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا۔
—
متبادل نظریات اور سوالات
حادثے کے بعد کئی سوالات اٹھے:
C-130 طیارہ دنیا کے محفوظ ترین طیاروں میں شمار ہوتا ہے، اس کی تباہی اتنی اچانک کیسے ہوئی؟
حادثے کے فوراً بعد جائے حادثہ کو سیل کر دینا، غیر معمولی تھا یا حفاظتی ضرورت؟
حادثے کے وقت طیارے میں موجود کالے ڈبے (Black Boxes) کی عدم موجودگی یا دستیابی پر شکوک
یہ حادثہ محض اتفاق تھا یا کسی اندرونی یا بیرونی سازش کا نتیجہ؟
یہ سوالات آج بھی مختلف حلقوں میں گردش کر رہے ہیں، مگر کسی تحقیق یا سرکاری رپورٹ نے ان کا واضح جواب نہیں دیا۔
—
عالمی تناظر: کیا امریکہ کو علم تھا؟
اس وقت جنرل ضیاء افغان جنگ میں مجاہدین کی پشت پناہی کر رہے تھے، جو امریکی مفادات کے عین مطابق تھا۔ تاہم، حادثے کے بعد کچھ حلقے یہ سوال اٹھاتے رہے کہ کیا ضیاء کا کردار افغان جنگ کے اختتام میں کوئی رکاوٹ تو نہیں بن رہا تھا؟
اس پر کوئی ثبوت موجود نہیں، مگر عالمی میڈیا اور سیاسی مبصرین نے اس موضوع پر طویل عرصہ تبصرے کیے۔ تاہم سرکاری سطح پر کسی ریاست یا ادارے کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔
—
پاکستان کی سیاست پر اثرات
جنرل ضیاء الحق کی وفات نے ملکی سیاست کا رخ یکسر بدل دیا۔ اقتدار عبوری طور پر غلام اسحاق خان کے پاس آیا، بعد ازاں ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا، جو ضیاء کی مخالفت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔
یہ حادثہ جمہوریت کی بحالی کا ایک موقع بھی بن گیا، لیکن ساتھ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار، آئینی حدود اور داخلی استحکام کے نئے سوالات بھی پیدا ہوئے۔
—
آج 37 برس بعد
2025 میں اس سانحے کو 37 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین، تاریخی محققین اور ملکی شہری آج بھی چاہتے ہیں کہ اس واقعے کے بارے میں شفاف اور مکمل حقائق سامنے لائے جائیں۔
حکومتی ادارے وقتاً فوقتاً اس واقعے کو ایک “بند باب” قرار دیتے آئے ہیں، مگر ہر سال 17 اگست کو یہ باب پھر سے کھل جاتا ہے۔
—
میڈیا اور ثقافت میں تاثر
جنرل ضیاء کے طیارہ حادثے پر کئی دستاویزی فلمیں، ناول اور تجزیے سامنے آ چکے ہیں، جن میں مختلف نظریات بیان کیے گئے۔ معروف ناول “A Case of Exploding Mangoes” (محمد حنیف) نے اس واقعے کو طنز و مزاح کے ساتھ پیش کیا، جس پر عالمی توجہ بھی ملی۔
تاہم ان تحریروں اور فلموں کو صرف ادبی یا صحافتی کوشش ہی سمجھا جاتا ہے، ان کا کسی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
—
نتیجہ: تاریخی سوال، تاریخی سکوت
جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثہ پاکستان کی تاریخ کے ان چند بڑے سانحات میں شامل ہے جن پر قوم کو آج بھی مکمل سچ کا انتظار ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک عسکری قیادت کے انجام کی کہانی ہے، بلکہ ریاستی اداروں کے اندر شفافیت، احتساب اور سچ کے مطالبے کی علامت بھی ہے۔















Leave a Reply