بھارت کے اندر پاکستانی نیٹ ورک: ایک زمانے میں دہلی تک رسائی

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ 1947 سے لے کر آج تک ان دونوں ممالک کے درمیان چار باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں، اور درجنوں غیر علانیہ محاذ گرم رہے ہیں۔ ان تنازعات کے دوران جہاں سفارتی، عسکری اور معاشی محاذوں پر کشمکش جاری رہی، وہیں خفیہ اداروں کی دنیا میں بھی ایک طویل اور سنسنی خیز داستان لکھی گئی — آئی ایس آئی اور را کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی سرد جنگ۔

 

دہلی تک رسائی: ایک تاریخی حقیقت؟

 

بعض رپورٹس کے مطابق 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پاکستان کے خفیہ ادارے نے بھارت میں ایک ایسا نیٹ ورک قائم کر لیا تھا جو نئی دہلی جیسے حساس علاقے تک رسائی رکھتا تھا۔ ان نیٹ ورکس کا مقصد صرف معلومات کا حصول نہیں تھا بلکہ بعض اوقات اہم دفاعی یا سیاسی اہداف کو متاثر کرنا بھی تھا۔

 

مشہور کیسز:

 

1992 میں بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی نے دہلی میں ایک شخص کو گرفتار کیا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ پاکستانی نیٹ ورک کا اہم حصہ تھا۔

 

2005 میں ممبئی میں ایک اور نیٹ ورک کا انکشاف ہوا، جس میں چند مقامی افراد بھی شامل تھے۔

 

 

نیٹ ورک کی نوعیت: کون، کیسے، اور کہاں؟

 

پاکستانی نیٹ ورک عموماً تین اقسام پر مشتمل ہوتا تھا:

 

1. مقامی سہولت کار: یہ افراد بھارت کے اندر موجود ہوتے، اور مالی یا نظریاتی بنیادوں پر نیٹ ورک سے منسلک ہوتے۔

 

 

2. کراس بارڈر ایجنٹس: تربیت یافتہ افراد جو نیپال، بنگلہ دیش یا دیگر ہمسایہ ممالک کے ذریعے بھارت میں داخل ہوتے۔

 

 

3. خاموش معلوماتی ذرائع: یونیورسٹیوں، سرکاری دفاتر یا عسکری تنصیبات سے وابستہ افراد۔

 

 

 

ٹیکنالوجی اور تیز رفتار رابطے

 

1990 کی دہائی کے آخر میں جب موبائل فونز اور انٹرنیٹ نے دنیا میں تیزی سے ترقی کی، تو جاسوسی کے طور طریقے بھی بدل گئے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے اس وقت کے مطابق اپنے نیٹ ورکس کو جدید خطوط پر استوار کیا، جہاں کوڈ ورڈز، ڈیجیٹل ٹولز اور سوشل انجینئرنگ کا استعمال بڑھا۔

 

بھارت کی جوابی کارروائیاں

 

بھارتی خفیہ ادارے “را” نے ان نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے کئی آپریشنز کیے:

 

آپریشن چکرورتی (2002): دہلی اور ممبئی میں بیک وقت چھاپے

 

آپریشن ساگر (2010): بنگلہ دیش کے راستے داخل ہونے والے ایجنٹس کی گرفتاری

 

 

ان جوابی اقدامات کے نتیجے میں کئی افراد گرفتار ہوئے، جن میں سے کچھ کے اعترافی بیانات میڈیا پر بھی آئے۔

 

سفارتی و سیاسی اثرات

 

ان جاسوسی نیٹ ورکس کے انکشاف سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوتے گئے۔ بھارتی حکومت نے پاکستان پر متعدد بار الزام لگایا کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، جبکہ پاکستان ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

 

موجودہ صورتحال

 

آج کے دور میں جب سائبر جاسوسی اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ بڑھ چکی ہے، دونوں ممالک کے درمیان جاسوسی کی نوعیت بھی بدل چکی ہے۔ اب معلومات کی چوری صرف زمینی ذرائع سے نہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں بھی جاری ہے۔

 

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات آج بھی کشیدہ ہیں، لیکن اب جنگ کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب یہ ایک “خاموش جنگ” ہے جس میں دونوں اطراف کے خفیہ ادارے مسلسل چوکنا ہیں۔

 

 

 

🔍 نتیجہ: ماضی کی گہرائیوں سے ایک سبق

 

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک زمانے میں پاکستان کا خفیہ نیٹ ورک بھارت کے دل، دہلی تک رسائی رکھتا تھا۔ یہ نیٹ ورک بلاشبہ ایک منظم اور پیچیدہ منصوبے کا حصہ تھا، جسے وقت کے ساتھ ساتھ توڑا گیا۔ لیکن یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خفیہ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، بس ان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔

 

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔