عالمی طاقتوں کے جی سیون اجلاس میں ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کے تناؤ بھرے ماحول کو چھیڑا گیا، اور ہمیشہ کی طرح بیانیہ ایک طرف جھکا ہوا دکھائی دیا۔ اسرائیل کی کھلی عسکری سرگرمیوں کو “دفاعی حق” کا نام دیا گیا جبکہ ایران کو ایک بار پھر ایٹمی پروگرام پر “تشویش” کا نشانہ بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری واقعی امن کی خواہاں ہے یا پھر سیاسی مفادات کے تانے بانے میں انصاف دفن ہو چکا ہے؟
جی سیون اجلاس: ایک نظر
رواں ہفتے اٹلی میں منعقدہ جی سیون اجلاس میں شریک رکن ممالک — امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، کینیڈا اور اٹلی — نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں ایران کے ایٹمی عزائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا:
> “ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام سفارتی اقدامات بروئے کار لائیں گے۔”
دوسری طرف، اسرائیل کی طرف سے حالیہ دنوں میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں، فضائی حملوں، اور غزہ پر بمباری کو “دفاع کے حق” کا حصہ قرار دیا گیا۔
دہرا معیار اور مسلم دنیا کا ردعمل
مسلم دنیا، خاص طور پر ایران، ترکی اور پاکستان کی طرف سے جی سیون کے اس مؤقف پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ:
اسرائیل کے نیوکلئیر پروگرام پر کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔
ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو بھی مشکوک بنایا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
میز پر رکھے گئے سوالات
سوال مغربی مؤقف مسلم دنیا کا اعتراض
اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار؟ خاموشی دوہرا معیار
ایران کا ایٹمی حق؟ روکنے کی کوشش پرامن پروگرام کیوں روکا جا رہا ہے؟
اسرائیلی بمباری؟ دفاعی حق انسانی حقوق کی پامالی
ایران کی مزاحمت؟ جارحیت خودمختاری کا حق
اسرائیل کی پوزیشن: بے لگام آزادی؟
اسرائیل اس وقت دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جن کے پاس خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، مگر وہ نہ تو NPT (Non-Proliferation Treaty) کا حصہ ہے، نہ ہی IAEA کے مکمل معائنے کا پابند۔ جی سیون نے کبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں چھیڑا۔
ایران کا مؤقف: دفاع یا جرم؟
ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے، اور اس کی نگرانی IAEA کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اجلاس کے بعد بیان میں کہا:
> “اگر اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار رکھنا جرم نہیں تو ایران کا پرامن ٹیکنالوجی حاصل کرنا کیوں جرم ہے؟”
امریکہ کا کردار: پالیسی یا پارٹنرشپ؟
امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے دفاع کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتا رہا ہے، چاہے وہ دفاعی ہو یا جارحانہ۔ ایران پر پابندیاں، اسرائیل کو اربوں ڈالر کی عسکری امداد، اور ہر عالمی فورم پر اسرائیل کی پشت پناہی — یہ سب امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی خاموشی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں ایران کے مسئلے پر تو قراردادیں منظور کی جاتی ہیں، مگر اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار یا فلسطین پر ظلم پر بات کرنا ہمیشہ متنازع بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک اعلامیہ میں کہا:
> “جی سیون کا دہرا معیار عالمی امن کے لیے خطرناک ہے۔ اگر ایران پر تنقید ہو سکتی ہے تو اسرائیل کی ایٹمی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھانے چاہییں۔”
نتیجہ: عالمی امن یا عالمی سیاست؟
جی سیون اجلاس ایک بار پھر اس سوال کو جنم دے گیا ہے کہ آیا عالمی طاقتیں امن کے لیے کام کر رہی ہیں یا اپنے سیاسی و اسٹریٹیجک مفادات کے لیے دنیا کو بانٹ رہی ہیں۔ ایران کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت نہ صرف مسلم دنیا کو مشتعل کر رہی ہے بلکہ دنیا میں انصاف کے عالمی اصولوں کو بھی متنازع بنا رہی ہے۔
Leave a Reply