ایران کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی چین اور روس کا دوٹوک مؤقف آگیا — مغرب کو وارننگ

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

تہران / بیجنگ / ماسکو:

ایران کی سرزمین پر اسرائیلی کارروائیوں اور امریکی دباؤ کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر نئی صف بندیاں سامنے آ رہی ہیں۔ چین اور روس نے ایران کے خلاف حالیہ حملوں پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے اس کو “بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔ دونوں ممالک نے ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرتے ہوئے مغربی طاقتوں کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ “مزید دراندازی ناقابل قبول ہے”۔

 

 

 

پس منظر: ایران پر حملے اور اسرائیلی سرگرمیاں

 

گزشتہ ہفتوں کے دوران ایران کے مختلف حصوں میں ہونے والے ڈرون حملے، سائبر حملے، اور حساس تنصیبات پر جاسوسی کارروائیوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تہران نے ان حملوں کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی، جبکہ امریکہ نے خاموش حمایت کے اشارے دیے۔

 

ایرانی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا

 

ایٹمی مراکز کی نگرانی کی اطلاعات

 

پاسداران انقلاب کے کئی افسران شہید

 

 

ان واقعات نے ایران کی خودمختاری اور سیکیورٹی پر بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جس کے بعد چین اور روس نے پہلی بار مشترکہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کھل کر ایران کی حمایت کی ہے۔

 

 

 

چین کا ردعمل:

 

“علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے والی ہر کارروائی کی مخالفت کرتے ہیں”

 

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیانگ وین بین نے اپنے بیان میں کہا:

 

> “ایران کی سرزمین پر حملے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں۔ ہم ایران کی خودمختاری کا مکمل احترام کرتے ہیں اور ایسے یکطرفہ اقدامات کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں جو خطے میں کشیدگی بڑھاتے ہیں۔”

 

 

 

چین نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں “طاقت کی سیاست” اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی اور تمام فریقین کو تحمل اور گفت و شنید کا راستہ اپنانا چاہیے۔

 

 

 

روس کا ردعمل:

 

“ایران کے خلاف جارحیت بند کی جائے”

 

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایک سخت بیان میں کہا:

 

> “ایران پر کسی بھی ملک کی طرف سے حملہ عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ روس، ایران کے دفاعی حق کو تسلیم کرتا ہے اور ہر ممکن حمایت جاری رکھے گا۔”

 

 

 

روسی وزارت دفاع نے بھی خبردار کیا کہ اگر ایران کے اندر مزید دراندازی ہوئی، تو اس کے “علاقائی اور عالمی نتائج” برآمد ہوں گے۔

 

 

 

معلوماتی جدول: چین و روس کا مؤقف بمقابلہ مغرب

 

ملک مؤقف بیان کا خلاصہ

 

چین ایران کی خودمختاری کی مکمل حمایت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت

روس ایران کے دفاعی حق کا اعتراف ایران کے خلاف جارحیت کی مزاحمت کا عندیہ

امریکہ خاموشی یا غیر رسمی حمایت اسرائیل کی کارروائی پر کوئی کھلا بیان نہیں

اسرائیل ممکنہ طور پر حملوں میں ملوث ایران کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ قرار دیتا ہے

 

 

 

 

مغرب کی خاموشی یا شراکت؟

 

ایران پر حملوں پر امریکہ اور یورپی اتحادیوں نے واضح ردعمل نہیں دیا، جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیاں مغربی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں۔

 

یورپی یونین کی طرف سے بھی صرف “تشویش” کا اظہار کیا گیا

 

جس نے ایران کے دفاعی موقف کو مزید تقویت دی اور چین و روس کو ایران کے قریب کر دیا۔

 

 

 

ایران کا موقف:

 

ایران نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا ہے کہ:

 

ملک کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا

 

تمام جارحانہ اقدامات کا مؤثر جواب دیا جائے گا

 

ایران نے اقوام متحدہ میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف رسمی شکایت بھی جمع کروائی ہے

 

 

 

 

تجزیہ: نیا جغرافیائی اتحاد بنتا ہوا؟

 

حالیہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ایران، روس اور چین کے درمیان ایک نیا تزویراتی اتحاد (Strategic Alliance) بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف دفاعی، بلکہ معاشی اور سفارتی محاذ پر بھی مغرب کے سامنے کھڑا ہو رہا ہے۔

 

مستقبل میں ممکنہ اقدامات:

 

مشترکہ فوجی مشقیں

 

ایران کو روسی دفاعی نظام کی فراہمی

 

چین کی طرف سے سیکیورٹی تعاون

 

خطے میں امریکی بیسز پر دباؤ بڑھانا

 

 

 

 

ایران کو کتنا فائدہ ہوگا؟

 

ممکنہ فوائد:

 

سفارتی تنہائی میں کمی

 

فوجی اور ٹیکنالوجی تعاون

 

سائبر سیکیورٹی میں بہتری

 

عالمی فورمز پر حمایت

 

 

ممکنہ خطرات:

 

خطے میں مزید کشیدگی

 

ایران پر نئی پابندیاں

 

اسرائیلی حملوں میں شدت

 

 

 

 

نتیجہ: طاقت کی نئی صف بندیاں

 

ایران پر حملے جہاں ایک طرف سیکیورٹی چیلنج ہیں، وہیں دوسری طرف عالمی اتحادوں کی نئی ترتیب کا پیش خیمہ بھی ہیں۔ چین اور روس کا دوٹوک مؤقف ایران کو اعتماد دے رہا ہے کہ وہ اب تنہا نہیں، اور مستقبل میں خطے کی سیاست میں نئے طاقت کے مراکز ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔

 

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔