اسرائیل نے ایران کے اندر اتنی گہرائی تک رسائی کیسے حاصل کی؟

Oplus_16908288
6 / 100 SEO Score

خفیہ مشن، سائبر حملے یا اندرونی مدد؟ پردے کے پیچھے کی دنیا بے نقاب

 

تہران / یروشلم / واشنگٹن:

ایران کے دفاعی اور ایٹمی اداروں پر حالیہ دنوں میں ہونے والے انتہائی ’سلیکٹڈ اور ٹارگٹڈ‘ حملوں نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی جانب سے ایران کے اندرون ملک، انتہائی محفوظ مقامات پر حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے ایران کے داخلی سیکیورٹی نظام میں غیر معمولی حد تک رسائی حاصل کر لی ہے۔

 

ایران جیسے سیکیورٹی سخت ملک میں اسرائیل کا اتنی گہرائی تک پہنچ جانا دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کے لیے ایک حیران کن سوال بن چکا ہے۔

 

 

 

تاریخی پس منظر: ایران-اسرائیل خفیہ جنگ

 

ایران اور اسرائیل کی دشمنی صرف سیاسی یا مذہبی سطح پر نہیں، بلکہ سیکیورٹی، سائبر، انٹیلیجنس اور پراکسی وار تک پھیل چکی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں:

 

نطنز ایٹمی پلانٹ پر حملہ

 

جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت

 

ایران کے سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل

 

پاسداران انقلاب کے خفیہ مراکز میں دھماکے

یہ سب وہ کارروائیاں ہیں جن کا الزام اسرائیلی انٹیلیجنس پر لگایا جاتا ہے۔

 

 

 

 

ممکنہ طریقے: اسرائیل نے یہ کیسے کیا؟

 

1. موساد کا انسانی نیٹ ورک (Human Intelligence)

 

اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد دنیا کے بہترین جاسوسی نیٹ ورکس میں شمار ہوتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ:

 

موساد نے ایران میں اندرونی ذرائع بھرتی کیے۔

 

سینئر افسران، ٹیکنیشنز، اور مقامی افراد کو خفیہ طور پر رقم یا دیگر لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا گیا۔

 

محسن فخری زادہ پر حملے میں ایک خودکار ریموٹ کنٹرولڈ گن استعمال کی گئی، جو تہران میں کئی ہفتے پہلے نصب کی گئی تھی — اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی تعاون موجود تھا۔

 

 

2. سائبر حملے اور ڈیجیٹل دراندازی

 

ایران کے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے Stuxnet وائرس ایک مشہور مثال ہے، جو امریکی اور اسرائیلی اشتراک سے تیار کیا گیا۔

یہ وائرس ایران کے یورینیم افزودگی سنٹری فیوجز کو غیر محسوس طریقے سے ناکام بناتا رہا۔

 

3. ماہرانہ ڈرون اور سٹلائٹ ٹیکنالوجی

 

اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی ہے، جنہیں چھوٹے سائز، خاموشی، اور ریئل ٹائم ویڈیو فیڈ جیسے فیچرز کے ساتھ ایران کے حساس علاقوں میں استعمال کیا گیا۔

 

4. خطے میں موجود اتحادیوں سے خفیہ تعاون

 

موساد کو خلیجی ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، اور آذربائیجان میں موجود خفیہ اڈوں سے ایران کے خلاف کارروائیوں کے لیے لاجسٹک سپورٹ حاصل رہی ہے۔

 

 

 

معلوماتی جدول: اسرائیلی رسائی کے اہم ذرائع

 

ذریعہ رسائی وضاحت

 

انسانی نیٹ ورک ایران میں اندرونی افراد کو بھرتی کرنا

سائبر حملے وائرس اور ڈیجیٹل ہیکنگ سے نظام کو تباہ کرنا

ڈرون و سیٹلائٹ نگرانی حساس مقامات کی نگرانی اور حملہ

مقامی تعاون ایران کے اندر یا بارڈر ایریاز سے لاجسٹک سپورٹ

ایرانی اپوزیشن گروپس سے رابطہ مجاہدین خلق جیسے گروپس کی خفیہ حمایت

 

 

 

 

ایران کی کمزوریاں: اسرائیلی کامیابی کی وجوہات

 

1. سیکیورٹی میں دراڑیں

 

ایران کے کچھ دفاعی مراکز میں جدید حفاظتی نظام کی کمی یا اندرونی بے ضابطگیوں کا فائدہ اٹھایا گیا۔

 

2. اندرونی سیاسی کشیدگی

 

ایران کے اندر بعض سیاسی اور مذہبی اختلافات نے بھی غیر ملکی مداخلت کی راہ ہموار کی۔

 

3. ٹیکنالوجیکل پسماندگی

 

اسرائیل کے مقابلے میں ایران سائبر سیکیورٹی اور انٹیلیجنس میں کئی سال پیچھے ہے۔

 

 

 

بین الاقوامی ردعمل

 

روس: اسرائیل کے اندرونی حملوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے

 

چین: ایران کی خودمختاری کی حمایت مگر کھل کر مذمت نہیں

 

امریکہ: اکثر موساد کی کارروائیوں سے باخبر رہتا ہے، اگرچہ بظاہر غیر متعلق رہتا ہے

 

پاکستان: ایرانی خودمختاری کے حق میں مگر اسرائیل کی کارروائی پر سرکاری ردعمل خاموش

 

 

 

 

کیا اسرائیل ایران کے اندر مکمل نیٹ ورک رکھتا ہے؟

 

کئی دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل نے ایران کے اندر:

 

سائبر نیٹ ورک

 

جاسوس سیل

 

ریموٹ ٹیکنالوجی اسٹیشنز

 

اندرونی معاونین

کا ایک مکمل سسٹم قائم کر لیا ہے، جس کے ذریعے وہ نہ صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے بلکہ وقت آنے پر درست کارروائی بھی کر سکتا ہے۔

 

 

 

 

نتیجہ: ایران کی خودمختاری کا چیلنج

 

ایران کے لیے یہ حملے صرف فوجی یا انٹیلیجنس ناکامی نہیں بلکہ اس کی خودمختاری، قومی سلامتی اور ساکھ کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ اسرائیل کی گہرائی تک رسائی نے ایران کو اندرونی سطح پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کیسے داخل ہوا — بلکہ یہ ہے کہ کیا ایران کبھی اس نیٹ ورک کو توڑ پائے گا؟

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔