پاکستان میں معاشی بحران کے شکار عوام کیلئے ایک اور بری خبر سامنے آ گئی۔ بجٹ 2025-26 میں حکومت نے سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ جہاں سرکاری خزانے کو سہارا دینے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب مہنگائی کے ستائے عوام اور کاروباری طبقہ اس اقدام کو “صاف توانائی کے خلاف اقدام” قرار دے رہا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، عوام نے سہارا ڈھونڈا… مگر اب وہ بھی مہنگا!
بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافے کے بعد لاکھوں پاکستانیوں نے سولر انرجی کو متبادل کے طور پر اپنایا۔ خاص طور پر گھریلو صارفین، چھوٹے دکاندار، مدرسے، مساجد، اور چھوٹے کاروبار سولر سسٹمز پر منتقل ہو چکے تھے۔ لیکن 18 فیصد سیلز ٹیکس نے ان کیلئے یہ آسان راستہ بھی بند کر دیا۔
سولر انرجی: ایک نظر میں حقیقت
نکتہ پرانی صورتحال نئی صورتحال
سیلز ٹیکس 0% 18%
سولر پینل کی قیمت نسبتاً کم واضح اضافہ متوقع
سولر سسٹم کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ممکنہ کمی
درآمدات کا حجم 2.5 بلین ڈالر سالانہ کم ہونے کا امکان
عوامی رجحان مثبت غیریقینی صورتحال
حکومت کی دلیل: ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور فنانشل گورننس
وزارت خزانہ کے مطابق، بجٹ خسارہ کم کرنے، IMF سے معاہدے کی شرائط پوری کرنے اور محصولات کو بہتر بنانے کے لیے یہ قدم ناگزیر تھا۔ سولر پینل چونکہ بڑی مقدار میں درآمد ہو رہے تھے، لہٰذا ان پر ٹیکس لگا کر اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
مگر عوام کا سوال: کیا گرین انرجی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے؟
ماحولیاتی ماہرین اور توانائی کے شعبے سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کی توانائی پالیسی کے برعکس ہے۔ جب دنیا بھر میں گرین انرجی کی طرف تیزی سے بڑھا جا رہا ہے، پاکستان میں الٹا سولر انرجی کو مہنگا کر کے عوام کو دوبارہ مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر عوامی ردِعمل
ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر صارفین نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی۔ “سولر بچاؤ” جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے۔ کئی صارفین نے اسے “بجلی مافیا کی جیت” قرار دیا، جو نہیں چاہتے کہ عوام خودمختار ہو جائے۔
صارفین کی آوازیں:
“حکومت خود عوام کو سولر پر جانے کا مشورہ دیتی تھی، اب اس پر ٹیکس لگا کر ہمیں واپس اندھیرے میں دھکیل رہی ہے!”
“کیا IMF کی ہر شرط ماننی ضروری ہے؟ عوام کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے!”
“اب صرف امیر طبقہ ہی سولر لگا سکے گا، غریب کیلئے پھر صرف بل، بل اور بل!”
چھوٹے کاروبار اور زرعی شعبہ بھی متاثر
یہ ٹیکس صرف شہری گھریلو صارفین کیلئے مہنگائی کا باعث نہیں بنے گا، بلکہ دیہی علاقوں کے کاشتکار بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ کئی علاقوں میں ٹیوب ویل اب سولر پر چلائے جا رہے ہیں تاکہ بجلی یا ڈیزل کی لاگت سے بچا جا سکے۔ اب وہی سولر سسٹم مہنگے ہو جائیں گے۔
عالمی رجحانات کے برعکس فیصلہ؟
دنیا بھر میں حکومتیں سولر انرجی پر سبسڈی دیتی ہیں، تاکہ عوام ماحول دوست توانائی استعمال کرے۔ پاکستان میں اس کے برعکس 18 فیصد ٹیکس لگا کر اسے مہنگا کر دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے سرمایہ کاری بھی متاثر ہو گی اور گرین انرجی کا ہدف بھی پیچھے رہ جائے گا۔
آئندہ کیا ہو گا؟ عوامی احتجاج یا حکومتی ریویو؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی دباؤ اور توانائی ماہرین کی رائے کے بعد حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرتی ہے یا نہیں۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو آنے والے دنوں میں سولر سسٹمز کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہو گا اور نئی انسٹالیشنز میں کمی متوقع ہے۔
—
نتیجہ: ایک روشن مستقبل پر اندھیرا؟
18 فیصد ٹیکس نے عوام کو حیران اور مایوس کر دیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف معیشت بلکہ ماحولیاتی پالیسیوں کیلئے بھی دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وقت بتائے گا کہ حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے یا سولر صارفین کو ریلیف دیتی ہے۔















Leave a Reply