گلگت بلتستان (قوم نیوز) – گلگت بلتستان کے محنت کش عوام کے لیے کاروبار کرنا دن بدن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک اور خبر نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے – جی بی سے اسلام آباد چیری لے جانے پر بھی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام پر کاروباری طبقے، کسانوں اور عوام نے شدید غصے اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
—
چیری پر ٹیکس: ظلم یا پالیسی؟
گلگت بلتستان قدرتی حسن اور زرخیز زمین کا گہوارہ ہے، جہاں کی چیری دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہر سال موسم گرما میں مقامی کسان بڑی محنت سے چیری کی فصل تیار کرتے ہیں اور اسے پاکستان کے دیگر شہروں، خصوصاً اسلام آباد، راولپنڈی، اور لاہور روانہ کرتے ہیں۔
تاہم، اب اس قدرتی نعمت کو منڈی تک پہنچانے پر بھی بھاری ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ کسانوں اور ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ:
> “ایک طرف مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، دوسری طرف حکومت نے غریب کسانوں کی آمدنی پر بھی ڈاکہ ڈال دیا ہے۔”
—
کاروبار دشمن پالیسی؟
گلگت بلتستان کے مقامی تاجر اور کاشتکار سوال اٹھا رہے ہیں کہ:
جب ہم اپنی زمین پر اگائی گئی فصلیں اسلام آباد لے کر آتے ہیں، تو کون سی منطق کے تحت ہم سے ٹیکس لیا جاتا ہے؟
یہ پاکستان ہی کا حصہ ہے یا نہیں؟
کیا حکومت ہم سے حق حلال کی روزی بھی چھیننا چاہتی ہے؟
—
اہم نکات (Integrated):
چیری کی نقل و حمل پر ٹیکس سے چھوٹے کسان اور کاروباری افراد شدید متاثر
جی بی میں زراعت اور میوہ جات پر پہلے ہی سہولیات کا فقدان
ٹیکس کے باعث قیمتوں میں اضافہ، خریدار اور فروخت کنندہ دونوں پریشان
ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ، منڈی تک رسائی مزید مہنگی
مقامی حکومت کی خاموشی سوالیہ نشان
—
عوام کا ردعمل اور مطالبات
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت کے اس اقدام کو “گلگت بلتستان کے ساتھ دشمنی” قرار دیا جا رہا ہے۔ عوام اور تاجروں کا مطالبہ ہے کہ:
چیری سمیت زرعی اجناس پر ہر قسم کا ٹیکس فوری ختم کیا جائے
گلگت بلتستان کے کاروباریوں کو نقل و حمل کی سہولیات فراہم کی جائیں
جی بی کو پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح برابری کے حقوق دیے جائیں
—
کیا یہ سلوک وفاق کی نفی نہیں؟
یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان سے والہانہ محبت رکھتے ہیں، مگر ہر سال کاروباری سیزن میں ان کے ساتھ کیے جانے والے یہ سلوک ان کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ فوری نوٹس لے کر اس ظالمانہ ٹیکس کو ختم کرے تاکہ چیری کا یہ “میٹھا پھل” عوام کے لیے “کڑوا زہر” نہ بن جائے۔
Leave a Reply