پنجاب پولیس پر ایک بار پھر انسانیت سوز تشدد کے سنگین الزامات عائد ہو گئے، جب ایک 34 سالہ شخص محمد ساجد بلوچ کو پولیس حراست کے دوران بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے گردے فیل ہو گئے اور اب وہ بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں ڈائیلیسس پر ہے۔
📍 تشدد کی تفصیلات: انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی
محمد ساجد بلوچ، ولد رحیم یار خان، نے 7 اپریل 2025 سے پولیس حراست میں رہنے کے دوران اپنے ساتھ پیش آئے غیر انسانی سلوک کی تفصیل بیان کی۔
اس نے بتایا کہ:
پولیس نے اسے چمڑے کے جوتوں اور ڈنڈوں سے مسلسل مارا۔
جسم کے نازک حصوں خصوصاً سر، گردن، بازو اور ٹانگوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔
بجلی کے جھٹکے دیے گئے، جس سے اس کی حالت بگڑ گئی۔
جسم پر شدید سوجن، چہرے پر ورم، اور پیشاب کی مقدار میں کمی دیکھنے میں آئی۔
🏥 طبی صورتحال: گردوں کا فیل ہونا اور فوری ریفرل
تشدد کے 20 روز بعد، یعنی 27 اپریل 2025 کو محمد ساجد بلوچ کو تشویشناک حالت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال لودھراں لایا گیا، لیکن حالت میں بہتری نہ آنے پر اگلے ہی دن بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال (BVH) ریفر کر دیا گیا۔
موجودہ حالت:
محمد ساجد اب ڈائیلیسس پر ہے۔
CVP لائن لگی ہوئی ہے، جو گردوں کے امراض کے مریضوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
📋 معائنہ رپورٹ: جسمانی زخم واضح نہیں مگر اندرونی نقصان شدید
ابتدائی طبی معائنے کے مطابق:
معائنہ تفصیل
ہوش مکمل ہوش میں، وقت و مقام کی شناخت برقرار
بلڈ پریشر 120/90 mmHg
نبض 85 فی منٹ
درجہ حرارت 99.9°F
جسمانی زخم ظاہری زخم یا خراش واضح نہیں
کپڑوں کا معائنہ کپڑوں پر خاص نشان یا چوٹ کے آثار نہیں
🧪 ماہر گردہ (نیفروالوجسٹ) کی رائے: تشدد نے جسمانی نظام کو تباہ کر دیا
ماہرین کے مطابق محمد ساجد بلوچ کو Acute Kidney Injury (AKI) لاحق ہوئی، جو کہ rhabdomyolysis کی وجہ سے ہوئی — یہ وہ کیفیت ہے جس میں پٹھے ٹوٹنے سے زہریلے مواد خون میں شامل ہو جاتے ہیں، جو گردوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کی لیب رپورٹ نے بھی CPK اور LDH لیولز میں اضافے کی تصدیق کی، جو rhabdomyolysis کی واضح علامات ہیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق ڈائیلیسس کے بعد گردوں کی کارکردگی میں کچھ بہتری آئی، لیکن مکمل صحت یابی ابھی ممکن نہیں۔
—
⚖️ پولیس حراست میں تشدد: قانون، اخلاقیات اور انسانیت کی تذلیل
یہ پہلا موقع نہیں جب پولیس پر ایسے الزامات لگے ہوں، مگر اس بار میڈیکل بورڈ کی حتمی رائے نے ان الزامات کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔
DSMB بورڈ (District Standing Medical Board) نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ:
> “محمد ساجد بلوچ کو لاحق گردوں کی شدید بیماری براہ راست پولیس کے جسمانی تشدد کا نتیجہ ہے۔”
یہ رائے صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ پنجاب پولیس کے تشدد کلچر پر ایک چارج شیٹ ہے۔
—
💡 سوالات جو جواب مانگتے ہیں
کیا پنجاب حکومت اس واقعے پر ایکشن لے گی؟
کیا تشدد کرنے والے اہلکاروں کو سزا دی جائے گی؟
محمد ساجد بلوچ جیسے عام شہری کی زندگی کا حساب کون دے گا؟
—
🧾 حکام اور ڈاکٹروں کے دستخط کنندگان
1. چیف کنسلٹنٹ سرجن
2. ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر
3. کنسلٹنٹ نیفروالوجسٹ
4. ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (PS)
5. میڈیکل سپرنٹنڈنٹ DHQ لودھراں (چیئرمین DSMB)
—
📢 نتیجہ: نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ یا اصلاح کا موقع؟
محمد ساجد بلوچ کی کہانی صرف ایک فرد کا المیہ نہیں، بلکہ ایک نظامی ناکامی کی غمازی ہے۔ اگر مجرم پولیس اہلکاروں کو کھلی چھوٹ ملتی رہی تو کسی کا بھی بیٹا، بھائی یا باپ کل اس نظام کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ پنجاب حکومت اور اعلیٰ عدالتیں اس میڈیکل رپورٹ کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہیں؟
پنجاب پولیس پر ایک بار پھر انسانیت سوز تشدد کے سنگین الزامات عائد ہو گئے، جب ایک 34 سالہ شخص محمد ساجد بلوچ کو پولیس حراست کے دوران بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے گردے فیل ہو گئے اور اب وہ بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں ڈائیلیسس پر ہے۔
📍 تشدد کی تفصیلات: انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی
محمد ساجد بلوچ، ولد رحیم یار خان، نے 7 اپریل 2025 سے پولیس حراست میں رہنے کے دوران اپنے ساتھ پیش آئے غیر انسانی سلوک کی تفصیل بیان کی۔
اس نے بتایا کہ:
پولیس نے اسے چمڑے کے جوتوں اور ڈنڈوں سے مسلسل مارا۔
جسم کے نازک حصوں خصوصاً سر، گردن، بازو اور ٹانگوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔
بجلی کے جھٹکے دیے گئے، جس سے اس کی حالت بگڑ گئی۔
جسم پر شدید سوجن، چہرے پر ورم، اور پیشاب کی مقدار میں کمی دیکھنے میں آئی۔
🏥 طبی صورتحال: گردوں کا فیل ہونا اور فوری ریفرل
تشدد کے 20 روز بعد، یعنی 27 اپریل 2025 کو محمد ساجد بلوچ کو تشویشناک حالت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال لودھراں لایا گیا، لیکن حالت میں بہتری نہ آنے پر اگلے ہی دن بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال (BVH) ریفر کر دیا گیا۔
موجودہ حالت:
محمد ساجد اب ڈائیلیسس پر ہے۔
CVP لائن لگی ہوئی ہے، جو گردوں کے امراض کے مریضوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
📋 معائنہ رپورٹ: جسمانی زخم واضح نہیں مگر اندرونی نقصان شدید
ابتدائی طبی معائنے کے مطابق:
معائنہ تفصیل
ہوش مکمل ہوش میں، وقت و مقام کی شناخت برقرار
بلڈ پریشر 120/90 mmHg
نبض 85 فی منٹ
درجہ حرارت 99.9°F
جسمانی زخم ظاہری زخم یا خراش واضح نہیں
کپڑوں کا معائنہ کپڑوں پر خاص نشان یا چوٹ کے آثار نہیں
🧪 ماہر گردہ (نیفروالوجسٹ) کی رائے: تشدد نے جسمانی نظام کو تباہ کر دیا
ماہرین کے مطابق محمد ساجد بلوچ کو Acute Kidney Injury (AKI) لاحق ہوئی، جو کہ rhabdomyolysis کی وجہ سے ہوئی — یہ وہ کیفیت ہے جس میں پٹھے ٹوٹنے سے زہریلے مواد خون میں شامل ہو جاتے ہیں، جو گردوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کی لیب رپورٹ نے بھی CPK اور LDH لیولز میں اضافے کی تصدیق کی، جو rhabdomyolysis کی واضح علامات ہیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق ڈائیلیسس کے بعد گردوں کی کارکردگی میں کچھ بہتری آئی، لیکن مکمل صحت یابی ابھی ممکن نہیں۔
—
⚖️ پولیس حراست میں تشدد: قانون، اخلاقیات اور انسانیت کی تذلیل
یہ پہلا موقع نہیں جب پولیس پر ایسے الزامات لگے ہوں، مگر اس بار میڈیکل بورڈ کی حتمی رائے نے ان الزامات کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔
DSMB بورڈ (District Standing Medical Board) نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ:
> “محمد ساجد بلوچ کو لاحق گردوں کی شدید بیماری براہ راست پولیس کے جسمانی تشدد کا نتیجہ ہے۔”
یہ رائے صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ پنجاب پولیس کے تشدد کلچر پر ایک چارج شیٹ ہے۔
—
💡 سوالات جو جواب مانگتے ہیں
کیا پنجاب حکومت اس واقعے پر ایکشن لے گی؟
کیا تشدد کرنے والے اہلکاروں کو سزا دی جائے گی؟
محمد ساجد بلوچ جیسے عام شہری کی زندگی کا حساب کون دے گا؟
—
🧾 حکام اور ڈاکٹروں کے دستخط کنندگان
1. چیف کنسلٹنٹ سرجن
2. ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر
3. کنسلٹنٹ نیفروالوجسٹ
4. ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (PS)
5. میڈیکل سپرنٹنڈنٹ DHQ لودھراں (چیئرمین DSMB)
—
📢 نتیجہ: نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ یا اصلاح کا موقع؟
محمد ساجد بلوچ کی کہانی صرف ایک فرد کا المیہ نہیں، بلکہ ایک نظامی ناکامی کی غمازی ہے۔ اگر مجرم پولیس اہلکاروں کو کھلی چھوٹ ملتی رہی تو کسی کا بھی بیٹا، بھائی یا باپ کل اس نظام کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ پنجاب حکومت اور اعلیٰ عدالتیں اس میڈیکل رپورٹ کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہیں؟
Leave a Reply