شملہ معاہدہ 1972: امن کی امید یا دھوکے کا جال؟ تاریخ کا وہ موڑ جس نے پاکستان کو مجبور کیا یا محفوظ؟

7 / 100 SEO Score

اسلام آباد – شملہ معاہدہ 1972ء، جسے جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ کیا یہ معاہدہ واقعی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے میں کامیاب رہا؟ یا یہ ایک سیاسی چال تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کو سفارتی میدان میں پیچھے دھکیل دیا گیا؟

 

 

 

تاریخی جھروکوں سے جھانکتے ہوئے: 1971 کی جنگ اور شملہ کی میز

 

1971ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ کا انجام مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔ اس ذلت آمیز شکست کے بعد پاکستان کو نہ صرف فوجی بلکہ سفارتی محاذ پر بھی شدید دباؤ کا سامنا تھا۔

 

جنگ بندی کے بعد ضروری تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے پائے۔ چنانچہ 3 جولائی 1972ء کو بھارتی ریاست شملہ میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی، جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی نمائندگی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کی۔

 

 

 

شملہ معاہدے کی اہم شقیں: امن یا پابندی کا پٹہ؟

 

شق نمبر وضاحت

 

1 تمام تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر، دو طرفہ بات چیت سے حل ہوں گے

2 1971ء کے بعد کی جنگ بندی لائن کو “لائن آف کنٹرول” تسلیم کیا گیا

3 کسی بھی ملک کو یکطرفہ طور پر حالات بدلنے کی اجازت نہیں

4 قیدیوں اور شہریوں کی واپسی کا بندوبست کیا گیا

5 عوامی روابط اور تعلقات کی بحالی کی یقین دہانی

 

 

 

 

شملہ معاہدہ: کس نے جیتا، کون ہارا؟

 

ابتدائی طور پر اسے ایک پرامن سفارتی کامیابی قرار دیا گیا۔ دونوں ممالک نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ جنگوں کی بجائے مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کیا ہوا؟

 

بھارت نے مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ رکھنے کی شرط کو جواز بنا کر بین الاقوامی مداخلت سے انکار کیا

 

لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزیاں کی گئیں

 

2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ شملہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی

 

بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور یکطرفہ اقدامات نے معاہدے کی روح کو چکنا چور کر دیا

 

 

 

 

پاکستان کا مؤقف اور بدلتی حکمت عملی

 

اب جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ شملہ معاہدہ اب غیر مؤثر ہو چکا ہے اور لائن آف کنٹرول کو صرف سیز فائر لائن سمجھا جائے گا، یہ واضح اشارہ ہے کہ پاکستان نئی سفارتی و عسکری حکمت عملی اپنا چکا ہے۔

 

 

 

سیاسی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

 

شملہ معاہدہ درحقیقت بھارت کو کشمیر پر جمود کا فائدہ دینے کا ذریعہ بنا

 

پاکستان کو بین الاقوامی فورمز سے دور کرنے کی ایک سفارتی چال تھی

 

وقت آ چکا ہے کہ پاکستان سلامتی کونسل کی قراردادوں کی طرف دوبارہ رجوع کرے

 

 

 

 

عوامی ردعمل: ایک نیا جذبہ

 

سوشل میڈیا پر لوگ کھل کر اس مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں:

 

> “شملہ معاہدہ ایک تالا تھا جس کی چابی بھارت نے چھین لی، اب وہ تالا توڑنا پڑے گا”

 

 

 

> “اب ضرورت ہے کہ پاکستان نئی بنیادوں پر کشمیر کی آواز اٹھائے”

 

 

 

 

 

کیا شملہ معاہدہ اب محض ایک تاریخ ہے؟

 

ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نے باقاعدہ طور پر شملہ معاہدے سے لاتعلقی اختیار کر لی، تو یہ نہ صرف کشمیر کے مسئلے کو دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر کر سکتا ہے بلکہ بھارت کو بھی سفارتی محاذ پر جوابدہ بنا سکتا ہے۔

 

 

 

خلاصہ

 

شملہ معاہدہ 1972 ایک تاریخی موقع تھا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ امن کی راہ سے زیادہ سیاسی پابندیوں کا جال بن گیا۔ آج جب پاکستان ایک نئے مؤقف کے ساتھ عالمی سطح پر سامنے آ رہا ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ:

 

> “شملہ معاہدہ فارغ ہوچکا ہے، اب کشمیر کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے”

 

 

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔