پاکستان میں خوبصورتی کے خواہشمند افراد کے لیے ہیئر ٹرانسپلانٹ اب کوئی نئی بات نہیں رہی، مگر حالیہ برسوں میں اس صنعت کا ایک خطرناک پہلو سامنے آیا ہے — غیر رجسٹرڈ کلینکس اور بلیک مارکیٹ ٹیکنیشنز، جو نہ صرف مریضوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں بلکہ اس حساس طبی عمل کو ایک کاروباری کھیل بنا چکے ہیں۔
ہیئر ٹرانسپلانٹ بلیک مارکیٹ کیا ہے؟
یہ ان غیر قانونی کلینکس، جعلی ڈاکٹروں اور ناتجربہ کار ٹیکنیشنز پر مشتمل نیٹ ورک ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں بغیر کسی لائسنس، تربیت یا حکومتی اجازت کے ہیئر ٹرانسپلانٹ کی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے شہروں میں درجنوں چھپے ہوئے “کلینک” سستے داموں علاج کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
اس دھندے کا طریقہ واردات:
کمرشل مارکیٹنگ: سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر سستے ہیئر ٹرانسپلانٹ کے دلکش اشتہارات
جعلی اسناد: ناتجربہ کار افراد کا خود کو “ہیئر سرجن” ظاہر کرنا
بغیر اسٹرلائزیشن کے اوزار: انفیکشن، جلدی بیماریاں اور حتیٰ کہ جان لیوا زہرخورانی
غیر معیاری لوکل اینستھیزیا: جس کے باعث کئی کیسز میں مریض کو دل کا دورہ بھی پڑ چکا ہے
—
ہیئر ٹرانسپلانٹ کے نتیجے میں سامنے آنے والے خطرناک کیسز
مریض کا نام شہر کلینک مسائل نتیجہ
عمر فاروق لاہور گلبرگ نجی کلینک انفیکشن، خون کا زیاں ICU میں داخل
علی شاہ کراچی ناظم آباد گلی کلینک فالج جیسی علامات جسمانی مفلوجی
کامران علی فیصل آباد بغیر نام کے گھر میں سیٹ اپ زخم، پچیدگیاں موت واقع
—
متاثرین کی کہانیاں: خوبصورتی کی قیمت، زندگی کی بازی
لاہور کے رہائشی عمر فاروق نے 30 ہزار میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کروایا، چند دن بعد اس کے سر پر انفیکشن پھیل گیا اور پُراسرار بخار میں مبتلا ہو کر اسے وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا پڑا۔
کراچی کے 28 سالہ علی شاہ نے بتایا:
“میں نے ایک فیس بک اشتہار پر رابطہ کیا۔ 20 ہزار میں 4000 گرافٹس کا وعدہ کیا گیا، لیکن نہ ہی ڈاکٹر کا لائسنس تھا نہ کوئی فالو اپ۔ اب آدھا چہرہ سُن ہے اور میں بات بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتا۔”
—
ماہرین کی رائے
ڈاکٹر شعیب رضا، ماہر جلدی و جراحی:
> “ہیئر ٹرانسپلانٹ ایک مکمل سرجیکل پراسیس ہے جو مکمل تربیت یافتہ سرجن ہی کر سکتا ہے۔ غلط ہاتھوں میں یہ عمل مریض کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔”
—
قوانین اور حکومتی خاموشی
پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) کے قوانین کے مطابق صرف رجسٹرڈ اور تربیت یافتہ ڈاکٹرز ہی یہ عمل انجام دے سکتے ہیں
مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اکثر جعلی کلینکس بااثر افراد کی پشت پناہی سے کام کرتے ہیں
کوئی مرکزی ڈیٹا بیس یا آن لائن تصدیقی نظام نہ ہونے کی وجہ سے عام شہری جعلی ڈاکٹروں کا شکار ہو جاتے ہیں
—
بلیک مارکیٹ کے فروغ کی وجوہات
مہنگے لائسنس یافتہ کلینکس کی فیس (200,000 سے زائد)
کم علمی اور جلد بازی میں فیصلے
سوشل میڈیا پر گمراہ کن اشتہارات
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت
—
کیا کیا جائے؟ (حل)
1. ہیلتھ کیئر کمیشنز کو فعال بنانا
2. رجسٹرڈ کلینکس کی آن لائن لسٹنگ
3. جعلی ڈاکٹروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی
4. عوامی آگاہی مہمات
5. سوشل میڈیا پر فیک اشتہارات کے خلاف کریک ڈاؤن
—
نتیجہ: خوبصورتی کی قیمت، جان سے کیوں چکائیں؟
پاکستان میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کی بلیک مارکیٹ ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ اگرچہ خوبصورتی کی خواہش فطری ہے، مگر اس کے لیے جان کا خطرہ مول لینا دانشمندی نہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ کسی بھی کلینک سے رجوع کرنے سے پہلے مکمل تحقیق کریں، PMC سے تصدیق شدہ سرجن سے رجوع کریں، اور کم قیمت کی لالچ میں اپنی زندگی کو داؤ پر نہ لگائیں۔
Leave a Reply