نئی دہلی / بیجنگ – چین کی جانب سے بھارت کی آبی حدود میں مداخلت کے خدشات ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ حالیہ سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق دریائے ستلج کے پانی کے بہاؤ میں 75 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، جس پر بھارتی ماہرین اور میڈیا شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ دریا شمالی بھارت کی زراعت، آبپاشی اور صنعتی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ماہرین نے کیا انکشاف کیا؟
ماحولیاتی سائنسدانوں نے جدید سیٹلائٹ ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ دریائے ستلج، جو تبت سے نکل کر بھارت میں داخل ہوتا ہے، اس کے بہاؤ میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں ہو سکتا، بلکہ اس میں چین کی انسانی مداخلت کا بھی قوی امکان موجود ہے۔
ستلج دریا کی اہمیت کیا ہے؟
ستلج دریا بھارت کے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان جیسے بڑے زرعی علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔ یہاں لاکھوں کسان اس پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر اس دریا کے بہاؤ میں مستقل کمی واقع ہوتی ہے تو:
زرعی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے
پانی کی قلت سے معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے
فصلوں کا نقصان غذائی قلت کا سبب بن سکتا ہے
بھارت کو اپنے آبی ذخائر پر از سر نو نظرثانی کرنا پڑ سکتی ہے
چین کی خاموش آبی جنگ؟
چین کی جانب سے تبت کے علاقے میں کئی ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے پانی کے قدرتی بہاؤ کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی رسمی معاہدہ موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔
پہلو تفصیل
دریا کا نام دریائے ستلج
ماخذ تبت، چین
متاثرہ ملک بھارت
بہاؤ میں کمی 75 فیصد
ماہرین کی رائے انسانی مداخلت ممکن، صرف موسم کا اثر نہیں
چین کا مؤقف باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا
بھارت کا ردعمل سرکاری سطح پر تشویش، پارلیمانی اجلاس میں معاملہ زیر بحث
معاہدہ چین اور بھارت کے درمیان آبی معاہدہ موجود نہیں
پاکستان پر ممکنہ اثرات؟
چونکہ دریائے ستلج کا تعلق پاکستان کے پانی کے بہاؤ سے بھی جڑا ہوا ہے، چین کی یہ ممکنہ مداخلت بالواسطہ طور پر پاکستان کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر چین بھارت کی طرف پانی روکتا ہے تو مستقبل میں اس کا اثر سندھ طاس معاہدے پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کی تجویز
ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ آبی معاہدے کی طرف سنجیدہ قدم اٹھائے اور اقوام متحدہ یا بین الاقوامی ثالثی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے واٹر مینجمنٹ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
—
نتیجہ
دریائے ستلج کے پانی میں نمایاں کمی صرف ماحولیاتی چیلنج نہیں بلکہ ایک تزویراتی خطرہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ چین کا یہ قدم نہ صرف بھارت بلکہ خطے میں موجود دیگر ممالک کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے
Leave a Reply