لندن کے ایک معروف اسپتال میں پیش آنے والا پراسرار واقعہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، جہاں پاکستانی نژاد برطانوی خاتون کی پر اسرار موت کے بعد ان کی لاش سے “دل” غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ چونکا دینے والی خبر نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کو ہلا کر رکھ گئی ہے بلکہ برطانوی میڈیکل سسٹم پر بھی سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات
متوفیہ خاتون، 36 سالہ فاطمہ زہرہ، جو لندن میں مقیم پاکستانی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، اچانک طبیعت خراب ہونے پر اسپتال داخل ہوئیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق، خاتون کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور انہیں فوری طور پر جانبر نہ ہو سکنے کی صورت میں مردہ قرار دے دیا گیا۔
تاہم اصل کہانی اُس وقت شروع ہوئی جب لواحقین نے قانونی تقاضوں کے تحت خاتون کی میڈیکل رپورٹس اور پوسٹ مارٹم کی مکمل تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسپتال کی طرف سے تاخیر اور گریز کے بعد جب لواحقین نے پرائیویٹ فرانزک ٹیم کے ذریعے تحقیق کی تو ہوش اُڑانے والا انکشاف سامنے آیا: خاتون کے جسم سے “دل” غائب تھا!
لواحقین کا مؤقف
فاطمہ کے بھائی کا کہنا ہے:
> “ہمیں پہلے تو موت کے حوالے سے الجھن تھی، لیکن جب رپورٹ ملی کہ اُن کے جسم سے دل ہی موجود نہیں، تو ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ یہ صرف غفلت نہیں، بلکہ کوئی گھناؤنا کھیل لگتا ہے۔”
برطانوی اداروں کی خاموشی
حیران کن طور پر، اسپتال انتظامیہ نے ابتدائی طور پر اس انکشاف کو “طبی غلطی” قرار دیا اور کہا کہ پوسٹ مارٹم کے دوران “دل نکالا گیا ہوگا”۔ تاہم، یہ وضاحت ناقابل قبول ٹھہری کیونکہ نہ تو اس بارے میں لواحقین کو اطلاع دی گئی، نہ ہی باضابطہ اجازت لی گئی۔
ممکنہ وجوہات — دل غائب کیوں؟
ماہرین کے مطابق، ایسے چند ممکنہ پہلو ہیں:
غیر قانونی اعضا کی تجارت: برطانیہ سمیت دنیا بھر میں انسانی اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت ایک بڑا مسئلہ ہے۔
میڈیکل تجربات: کچھ نجی میڈیکل ادارے ممکنہ طور پر مردہ افراد کے اعضا کو تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں — بغیر اجازت۔
انتظامی غفلت: بعض اوقات میڈیکل اسٹاف کی لاپروائی اور سسٹم کی کوتاہی ایسے سانحات کا سبب بنتی ہے۔
جدول: خاتون کی موت کے حوالے سے اہم نکات
تفصیل معلومات
متوفیہ کا نام فاطمہ زہرہ
عمر 36 سال
قومیت پاکستانی نژاد برطانوی
مقام لندن، یو کے
موت کی وجہ ہارٹ اٹیک (ابتدائی رپورٹ)
انکشاف دل لاش سے غائب
اسپتال کا مؤقف “طبی غلطی” یا “تحقیقی استعمال”
موجودہ تحقیقات پولیس اور انڈیپینڈنٹ میڈیکل بورڈ نے آغاز کر دیا
انسانی حقوق تنظیموں کا ردِعمل
برطانیہ کی ہیومن رائٹس واچ اور مسلم کونسل آف بریٹن نے اس واقعے کو “پریشان کن اور خطرناک رجحان” قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:
> “یہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں، بلکہ ہر اقلیت کے شہری کو سوچنے پر مجبور کرنے والا لمحہ ہے۔”
ماضی کے مشابہ واقعات
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب برطانیہ یا یورپ میں کسی لاش سے عضو غائب ہونے کی خبر سامنے آئی ہو:
2018 میں اسپین میں ایک مراکشی نژاد شخص کی لاش سے جگر نکال لیا گیا تھا۔
2021 میں اٹلی میں ایک نائجیرین مہاجر کے گردے کی مشتبہ غیابی رپورٹ سامنے آئی تھی۔
یہ واقعات اسی عالمی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں جو اب اقلیتوں کے ساتھ “طبی نسل پرستی” کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
لواحقین کا مطالبہ
فاطمہ کے خاندان نے:
برطانوی وزیراعظم سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا
پاکستانی ہائی کمیشن سے انصاف دلوانے کی اپیل کی
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کو درخواست دینے کا عندیہ دیا
پاکستانی وزارتِ خارجہ کا ردعمل
اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
> “ہم برطانیہ میں پاکستانی شہری کے ساتھ ہونے والے افسوسناک واقعے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ متاثرہ خاندان کی مکمل مدد کی جائے گی۔”
نتیجہ: سوالات کا طوفان، جوابات ندارد
فاطمہ زہرہ کی دل دہلا دینے والی موت نے نہ صرف طبی نظام، بلکہ عالمی اخلاقیات کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آج ہر پاکستانی یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہے:
“ایک برطانوی اسپتال میں ایک مسلمان خاتون کی لاش سے دل کیسے غائب ہو گیا؟”
تحقیقات جاری ہیں، مگر حقیقت کب سامنے آئے گی — اس کا جواب صرف وقت دے سکتا ہے۔
لندن کے ایک معروف اسپتال میں پیش آنے والا پراسرار واقعہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، جہاں پاکستانی نژاد برطانوی خاتون کی پر اسرار موت کے بعد ان کی لاش سے “دل” غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ چونکا دینے والی خبر نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کو ہلا کر رکھ گئی ہے بلکہ برطانوی میڈیکل سسٹم پر بھی سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات
متوفیہ خاتون، 36 سالہ فاطمہ زہرہ، جو لندن میں مقیم پاکستانی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، اچانک طبیعت خراب ہونے پر اسپتال داخل ہوئیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق، خاتون کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور انہیں فوری طور پر جانبر نہ ہو سکنے کی صورت میں مردہ قرار دے دیا گیا۔
تاہم اصل کہانی اُس وقت شروع ہوئی جب لواحقین نے قانونی تقاضوں کے تحت خاتون کی میڈیکل رپورٹس اور پوسٹ مارٹم کی مکمل تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسپتال کی طرف سے تاخیر اور گریز کے بعد جب لواحقین نے پرائیویٹ فرانزک ٹیم کے ذریعے تحقیق کی تو ہوش اُڑانے والا انکشاف سامنے آیا: خاتون کے جسم سے “دل” غائب تھا!
لواحقین کا مؤقف
فاطمہ کے بھائی کا کہنا ہے:
> “ہمیں پہلے تو موت کے حوالے سے الجھن تھی، لیکن جب رپورٹ ملی کہ اُن کے جسم سے دل ہی موجود نہیں، تو ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ یہ صرف غفلت نہیں، بلکہ کوئی گھناؤنا کھیل لگتا ہے۔”
برطانوی اداروں کی خاموشی
حیران کن طور پر، اسپتال انتظامیہ نے ابتدائی طور پر اس انکشاف کو “طبی غلطی” قرار دیا اور کہا کہ پوسٹ مارٹم کے دوران “دل نکالا گیا ہوگا”۔ تاہم، یہ وضاحت ناقابل قبول ٹھہری کیونکہ نہ تو اس بارے میں لواحقین کو اطلاع دی گئی، نہ ہی باضابطہ اجازت لی گئی۔
ممکنہ وجوہات — دل غائب کیوں؟
ماہرین کے مطابق، ایسے چند ممکنہ پہلو ہیں:
غیر قانونی اعضا کی تجارت: برطانیہ سمیت دنیا بھر میں انسانی اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت ایک بڑا مسئلہ ہے۔
میڈیکل تجربات: کچھ نجی میڈیکل ادارے ممکنہ طور پر مردہ افراد کے اعضا کو تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں — بغیر اجازت۔
انتظامی غفلت: بعض اوقات میڈیکل اسٹاف کی لاپروائی اور سسٹم کی کوتاہی ایسے سانحات کا سبب بنتی ہے۔
جدول: خاتون کی موت کے حوالے سے اہم نکات
تفصیل معلومات
متوفیہ کا نام فاطمہ زہرہ
عمر 36 سال
قومیت پاکستانی نژاد برطانوی
مقام لندن، یو کے
موت کی وجہ ہارٹ اٹیک (ابتدائی رپورٹ)
انکشاف دل لاش سے غائب
اسپتال کا مؤقف “طبی غلطی” یا “تحقیقی استعمال”
موجودہ تحقیقات پولیس اور انڈیپینڈنٹ میڈیکل بورڈ نے آغاز کر دیا
انسانی حقوق تنظیموں کا ردِعمل
برطانیہ کی ہیومن رائٹس واچ اور مسلم کونسل آف بریٹن نے اس واقعے کو “پریشان کن اور خطرناک رجحان” قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:
> “یہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں، بلکہ ہر اقلیت کے شہری کو سوچنے پر مجبور کرنے والا لمحہ ہے۔”
ماضی کے مشابہ واقعات
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب برطانیہ یا یورپ میں کسی لاش سے عضو غائب ہونے کی خبر سامنے آئی ہو:
2018 میں اسپین میں ایک مراکشی نژاد شخص کی لاش سے جگر نکال لیا گیا تھا۔
2021 میں اٹلی میں ایک نائجیرین مہاجر کے گردے کی مشتبہ غیابی رپورٹ سامنے آئی تھی۔
یہ واقعات اسی عالمی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں جو اب اقلیتوں کے ساتھ “طبی نسل پرستی” کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
لواحقین کا مطالبہ
فاطمہ کے خاندان نے:
برطانوی وزیراعظم سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا
پاکستانی ہائی کمیشن سے انصاف دلوانے کی اپیل کی
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کو درخواست دینے کا عندیہ دیا
پاکستانی وزارتِ خارجہ کا ردعمل
اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
> “ہم برطانیہ میں پاکستانی شہری کے ساتھ ہونے والے افسوسناک واقعے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ متاثرہ خاندان کی مکمل مدد کی جائے گی۔”
نتیجہ: سوالات کا طوفان، جوابات ندارد
فاطمہ زہرہ کی دل دہلا دینے والی موت نے نہ صرف طبی نظام، بلکہ عالمی اخلاقیات کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آج ہر پاکستانی یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہے:
“ایک برطانوی اسپتال میں ایک مسلمان خاتون کی لاش سے دل کیسے غائب ہو گیا؟”
تحقیقات جاری ہیں، مگر حقیقت کب سامنے آئے گی — اس کا جواب صرف وقت دے سکتا ہے۔
Leave a Reply