محبت کی موت: پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی گولیاں لگی لاشیں برآمد
پاکستانی معاشرے میں محبت کرنے والوں کے لیے راستے پہلے ہی کبھی آسان نہیں رہے، لیکن جب محبت کی سزا موت ٹھہرے تو سوال صرف قاتلوں پر نہیں بلکہ پورے سماجی رویے پر اٹھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسا ہی ایک لرزہ خیز واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی نے اپنی پسند کی شادی کی، اور چند ہی دن بعد دونوں کی لاشیں گولیوں سے چھلنی حالت میں برآمد ہوئیں۔ اس واقعے نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
واقعہ کی مکمل تفصیل
ذرائع کے مطابق، واقعہ پنجاب کے ایک دیہی علاقے میں پیش آیا جہاں لڑکے اور لڑکی نے خاندان کی رضامندی کے بغیر کورٹ میرج کی تھی۔ چند روز بعد اچانک دونوں لاپتہ ہوگئے۔ گھر والوں نے جب پولیس کو رپورٹ دی تو تلاش کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد جوڑے کی لاشیں ایک ویران کھیت سے ملیں، جن پر واضح طور پر گولیوں کے نشانات تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق، ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں، اور ممکنہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ لاشوں کے پاس کوئی شناختی کاغذات یا موبائل فون موجود نہیں تھا، جس سے شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔
خاندان کی مخالفت اور سماجی دباؤ
متاثرہ جوڑے کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ لڑکی کے خاندان کو ان کی پسند کی شادی ہرگز قبول نہیں تھی۔ خاندان کی طرف سے مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔ لڑکی نے ایک بار مقامی تھانے میں تحفظ کی درخواست بھی دی تھی لیکن اس پر کوئی عملی کارروائی نہ ہو سکی۔
محبت یا جرم؟
یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں پسند کی شادی کرنا کیا واقعی جرم بن چکا ہے؟ قانون تو ہر بالغ فرد کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی دیتا ہے، لیکن اکثر اوقات معاشرتی اقدار، قبائلی سوچ اور غیرت کے نام پر روایتیں اس قانون کو روند ڈالتی ہیں۔
معلوماتی جدول: پسند کی شادیوں پر غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ کیسز
سال کیسز کی تعداد صوبہ متاثرین کی تعداد نتیجہ
2021 128 پنجاب 150 صرف 22% میں گرفتاری
2022 143 سندھ 162 30% مقدمات بند
2023 109 خیبرپختونخوا 119 19% میں سزا
2024 (اب تک) 96 ملک بھر 101 زیرِ تفتیش
غیرت کے نام پر قتل: خاندانی فخر یا سفاکی؟
ایسے واقعات میں اکثر قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اپنے ہی بھائی، باپ یا چچا ہوتے ہیں۔
پولیس کی فائلوں میں یہ کیسز جلد بند ہو جاتے ہیں یا فریقین کے درمیان “صلح” کرا دی جاتی ہے۔
عدالتی نظام کی سست روی بھی ان مجرمان کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرکے سرِعام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی محبت کرنے والوں کی جان نہ لے سکے۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی
افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اب تک کوئی واضح پالیسی نہیں آئی جو ایسے واقعات کی روک تھام کر سکے۔ پولیس اور عدلیہ کی بے حسی ایسے قاتلوں کو مزید جری بنا رہی ہے۔
ممکنہ حل اور عوامی شعور کی ضرورت
اسکولوں اور کالجوں میں انسانی حقوق اور شخصی آزادی پر آگاہی مہم شروع کی جائے۔
میڈیا کو چاہیے کہ ایسے کیسز پر بھرپور روشنی ڈالے تاکہ عوام باشعور ہوں۔
قانونی اصلاحات کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا جائے۔
نتیجہ
محبت کرنا جرم نہیں، لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں اپنی پسند کا اظہار کرنا اب بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعات صرف دو افراد کی موت نہیں بلکہ انسانیت، آزادی اور انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
ہمیں سوچنا ہوگا، بولنا ہوگا اور آواز بلند کرنی ہوگی۔ ورنہ کل یہ المیہ کسی اور “میمونہ” یا “علی” کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
محبت کی موت: پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی گولیاں لگی لاشیں برآمد
پاکستانی معاشرے میں محبت کرنے والوں کے لیے راستے پہلے ہی کبھی آسان نہیں رہے، لیکن جب محبت کی سزا موت ٹھہرے تو سوال صرف قاتلوں پر نہیں بلکہ پورے سماجی رویے پر اٹھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسا ہی ایک لرزہ خیز واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی نے اپنی پسند کی شادی کی، اور چند ہی دن بعد دونوں کی لاشیں گولیوں سے چھلنی حالت میں برآمد ہوئیں۔ اس واقعے نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
واقعہ کی مکمل تفصیل
ذرائع کے مطابق، واقعہ پنجاب کے ایک دیہی علاقے میں پیش آیا جہاں لڑکے اور لڑکی نے خاندان کی رضامندی کے بغیر کورٹ میرج کی تھی۔ چند روز بعد اچانک دونوں لاپتہ ہوگئے۔ گھر والوں نے جب پولیس کو رپورٹ دی تو تلاش کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد جوڑے کی لاشیں ایک ویران کھیت سے ملیں، جن پر واضح طور پر گولیوں کے نشانات تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق، ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں، اور ممکنہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ لاشوں کے پاس کوئی شناختی کاغذات یا موبائل فون موجود نہیں تھا، جس سے شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔
خاندان کی مخالفت اور سماجی دباؤ
متاثرہ جوڑے کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ لڑکی کے خاندان کو ان کی پسند کی شادی ہرگز قبول نہیں تھی۔ خاندان کی طرف سے مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔ لڑکی نے ایک بار مقامی تھانے میں تحفظ کی درخواست بھی دی تھی لیکن اس پر کوئی عملی کارروائی نہ ہو سکی۔
محبت یا جرم؟
یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں پسند کی شادی کرنا کیا واقعی جرم بن چکا ہے؟ قانون تو ہر بالغ فرد کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی دیتا ہے، لیکن اکثر اوقات معاشرتی اقدار، قبائلی سوچ اور غیرت کے نام پر روایتیں اس قانون کو روند ڈالتی ہیں۔
معلوماتی جدول: پسند کی شادیوں پر غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ کیسز
سال کیسز کی تعداد صوبہ متاثرین کی تعداد نتیجہ
2021 128 پنجاب 150 صرف 22% میں گرفتاری
2022 143 سندھ 162 30% مقدمات بند
2023 109 خیبرپختونخوا 119 19% میں سزا
2024 (اب تک) 96 ملک بھر 101 زیرِ تفتیش
غیرت کے نام پر قتل: خاندانی فخر یا سفاکی؟
ایسے واقعات میں اکثر قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اپنے ہی بھائی، باپ یا چچا ہوتے ہیں۔
پولیس کی فائلوں میں یہ کیسز جلد بند ہو جاتے ہیں یا فریقین کے درمیان “صلح” کرا دی جاتی ہے۔
عدالتی نظام کی سست روی بھی ان مجرمان کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرکے سرِعام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی محبت کرنے والوں کی جان نہ لے سکے۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی
افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اب تک کوئی واضح پالیسی نہیں آئی جو ایسے واقعات کی روک تھام کر سکے۔ پولیس اور عدلیہ کی بے حسی ایسے قاتلوں کو مزید جری بنا رہی ہے۔
ممکنہ حل اور عوامی شعور کی ضرورت
اسکولوں اور کالجوں میں انسانی حقوق اور شخصی آزادی پر آگاہی مہم شروع کی جائے۔
میڈیا کو چاہیے کہ ایسے کیسز پر بھرپور روشنی ڈالے تاکہ عوام باشعور ہوں۔
قانونی اصلاحات کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا جائے۔
نتیجہ
محبت کرنا جرم نہیں، لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں اپنی پسند کا اظہار کرنا اب بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعات صرف دو افراد کی موت نہیں بلکہ انسانیت، آزادی اور انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
ہمیں سوچنا ہوگا، بولنا ہوگا اور آواز بلند کرنی ہوگی۔ ورنہ کل یہ المیہ کسی اور “میمونہ” یا “علی” کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
Leave a Reply