وفاداری کی نئی مثال: شاہ محمود قریشی کا عمران خان کے ساتھ غیر متزلزل عزم
عوامی سیاست میں نظریاتی وابستگی کی نایاب جھلک
پاکستان کی سیاست میں جہاں سیاسی وفاداریاں لمحوں میں بدلتی ہیں، وہاں تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کا تازہ ترین بیان ایک الگ ہی مثال قائم کرتا ہے۔ “جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا ہوں، جہاں پڑا تھا وہیں پڑا ہوں، عمران خان کے ساتھ تھا اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہوں گا”، ان الفاظ نے نہ صرف ان کے سیاسی کردار کو مزید تقویت دی بلکہ پارٹی کارکنان اور عوام کے دلوں میں ایک نئی امنگ بھی جگائی۔
پس منظر
شاہ محمود قریشی ایک تجربہ کار سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ وہ ماضی میں بھی کئی ادوار میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، خاص طور پر مشکل ترین وقت میں جب دیگر کئی رہنما پارٹی چھوڑ گئے یا خاموشی اختیار کر لی۔
موجودہ حالات میں بیان کی اہمیت
اس وقت جب پاکستان تحریک انصاف شدید سیاسی دباؤ اور قانونی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، شاہ محمود قریشی کا یہ بیان اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ خود بھی جیل یاترا کاٹ چکے ہیں اور حالیہ دنوں میں بھی ان کی رہائی محدود مدت کی ضمانت پر ہوئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قریشی کا یہ بیان پارٹی کے اندرونی استحکام کے لیے نہایت سودمند ہو سکتا ہے، خاص طور پر اُن کارکنوں کے لیے جو پچھلے کچھ عرصے میں مایوسی کا شکار ہو چکے تھے۔
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر اس بیان کو ہزاروں صارفین نے شیئر کیا ہے۔ ٹوئٹر پر #ShahMahmoodQureshi ٹرینڈ کرتا رہا، جبکہ پارٹی کارکنان نے اپنے پوسٹس اور ویڈیوز میں شاہ محمود قریشی کو “وفاداری کی علامت” قرار دیا۔
پارٹی کے اندر پیغام
قریشی کے اس بیان نے واضح پیغام دیا ہے کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی قیادت پر اب بھی بھروسہ ہے۔ اس طرح کے بیانات نہ صرف کارکنوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں بلکہ مخالفین کو بھی سیاسی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
—
جدول: شاہ محمود قریشی کے اہم سیاسی مراحل
سال اہم واقعہ کردار
2008 تحریک انصاف میں شمولیت اہم شمولیت
2013 قومی اسمبلی کے رکن منتخب جنوبی پنجاب میں اثر
2018 وزیر خارجہ مقرر خارجہ پالیسی میں اہم کردار
2022 لانگ مارچ کی قیادت پارٹی وفاداری کا مظاہرہ
2023 جیل میں قید عمران خان کے ساتھ کھڑے
—
اہم نکات جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ بیان کیوں اہم ہے:
پارٹی کے مشکل وقت میں حمایت کا اظہار۔
کارکنان کو حوصلہ دینے والا پیغام۔
سیاسی حریفوں کے لیے واضح چیلنج۔
جمہوری سیاست میں نظریاتی وابستگی کی جھلک۔
نتیجہ
شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان پاکستانی سیاست میں ایک ایسی مثال ہے جو نظریاتی سیاست کی واپسی کی امید دلاتی ہے۔ ایسے وقت میں جب بیشتر رہنما اقتدار کے ساتھ وابستگی کو ترجیح دیتے ہیں، قریشی کا موقف ثابت کرتا ہے کہ سیاست صرف کرسی کا کھیل نہیں بلکہ اصولوں کی جنگ بھی ہے۔
وفاداری کی نئی مثال: شاہ محمود قریشی کا عمران خان کے ساتھ غیر متزلزل عزم
عوامی سیاست میں نظریاتی وابستگی کی نایاب جھلک
پاکستان کی سیاست میں جہاں سیاسی وفاداریاں لمحوں میں بدلتی ہیں، وہاں تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کا تازہ ترین بیان ایک الگ ہی مثال قائم کرتا ہے۔ “جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا ہوں، جہاں پڑا تھا وہیں پڑا ہوں، عمران خان کے ساتھ تھا اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہوں گا”، ان الفاظ نے نہ صرف ان کے سیاسی کردار کو مزید تقویت دی بلکہ پارٹی کارکنان اور عوام کے دلوں میں ایک نئی امنگ بھی جگائی۔
پس منظر
شاہ محمود قریشی ایک تجربہ کار سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ وہ ماضی میں بھی کئی ادوار میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، خاص طور پر مشکل ترین وقت میں جب دیگر کئی رہنما پارٹی چھوڑ گئے یا خاموشی اختیار کر لی۔
موجودہ حالات میں بیان کی اہمیت
اس وقت جب پاکستان تحریک انصاف شدید سیاسی دباؤ اور قانونی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، شاہ محمود قریشی کا یہ بیان اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ خود بھی جیل یاترا کاٹ چکے ہیں اور حالیہ دنوں میں بھی ان کی رہائی محدود مدت کی ضمانت پر ہوئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قریشی کا یہ بیان پارٹی کے اندرونی استحکام کے لیے نہایت سودمند ہو سکتا ہے، خاص طور پر اُن کارکنوں کے لیے جو پچھلے کچھ عرصے میں مایوسی کا شکار ہو چکے تھے۔
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر اس بیان کو ہزاروں صارفین نے شیئر کیا ہے۔ ٹوئٹر پر #ShahMahmoodQureshi ٹرینڈ کرتا رہا، جبکہ پارٹی کارکنان نے اپنے پوسٹس اور ویڈیوز میں شاہ محمود قریشی کو “وفاداری کی علامت” قرار دیا۔
پارٹی کے اندر پیغام
قریشی کے اس بیان نے واضح پیغام دیا ہے کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی قیادت پر اب بھی بھروسہ ہے۔ اس طرح کے بیانات نہ صرف کارکنوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں بلکہ مخالفین کو بھی سیاسی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
—
جدول: شاہ محمود قریشی کے اہم سیاسی مراحل
سال اہم واقعہ کردار
2008 تحریک انصاف میں شمولیت اہم شمولیت
2013 قومی اسمبلی کے رکن منتخب جنوبی پنجاب میں اثر
2018 وزیر خارجہ مقرر خارجہ پالیسی میں اہم کردار
2022 لانگ مارچ کی قیادت پارٹی وفاداری کا مظاہرہ
2023 جیل میں قید عمران خان کے ساتھ کھڑے
—
اہم نکات جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ بیان کیوں اہم ہے:
پارٹی کے مشکل وقت میں حمایت کا اظہار۔
کارکنان کو حوصلہ دینے والا پیغام۔
سیاسی حریفوں کے لیے واضح چیلنج۔
جمہوری سیاست میں نظریاتی وابستگی کی جھلک۔
نتیجہ
شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان پاکستانی سیاست میں ایک ایسی مثال ہے جو نظریاتی سیاست کی واپسی کی امید دلاتی ہے۔ ایسے وقت میں جب بیشتر رہنما اقتدار کے ساتھ وابستگی کو ترجیح دیتے ہیں، قریشی کا موقف ثابت کرتا ہے کہ سیاست صرف کرسی کا کھیل نہیں بلکہ اصولوں کی جنگ بھی ہے۔
Leave a Reply