بھارت اور بنگلہ دیش آمنے سامنے! کروڑوں کا معاہدہ منسوخ، تجارتی جنگ کا خطرہ؟

6 / 100 SEO Score

جنوبی ایشیا کے دو قریبی ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ دنوں میں سفارتی اور تجارتی کشیدگی نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سرد مہری نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب بنگلہ دیش نے بھارتی کمپنی کے ساتھ کروڑوں روپے کا معاہدہ اچانک منسوخ کر دیا۔ یہ اقدام بھارت کی جانب سے بنگلہ دیشی مصنوعات پر درآمدی پابندی کے ردعمل میں اٹھایا گیا ہے۔

 

یہ پیشرفت نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں موجود دیگر ممالک کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بن سکتی ہے۔

 

 

 

پس منظر: سفارتی کشیدگی کی بنیاد کیا ہے؟

 

گزشتہ کچھ ہفتوں سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی فضا قائم ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش کی چند مخصوص مصنوعات پر اچانک درآمدی پابندی عائد کیے جانے نے بنگلہ دیشی حکومت کو حیران و پریشان کر دیا۔ اس کے ردعمل میں ڈھاکہ نے بھارت کی ایک بڑی کمپنی کے ساتھ جاری ایک کثیر القومی تجارتی معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا، جس کی مالیت 70 کروڑ بنگلہ دیشی ٹکا بتائی جا رہی ہے۔

 

 

 

منسوخ شدہ معاہدے کی تفصیل (جدول)

 

تفصیل معلومات

 

ملک بنگلہ دیش

متاثرہ کمپنی بھارتی نجی کمپنی (نام ظاہر نہیں کیا گیا)

معاہدے کی نوعیت انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ / بجلی کا منصوبہ

مالیت تقریباً 70 کروڑ ٹکا (تقریباً 50 کروڑ INR)

وجہ منسوخی بھارت کی درآمدی پابندیاں، سفارتی کشیدگی

اعلان کا وقت رواں ہفتے، حکومتی ترجمان کے ذریعے

 

 

 

 

بنگلہ دیشی حکومت کا موقف

 

بنگلہ دیش کی وزارت تجارت کے مطابق، بھارت کی یکطرفہ تجارتی پابندیوں کے جواب میں یہ معاہدہ منسوخ کیا گیا تاکہ ایک مضبوط پیغام دیا جا سکے کہ ڈھاکہ اب تجارتی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

 

ترجمان کے الفاظ:

 

> “ہماری خودمختاری، ہماری مارکیٹ اور ہمارے کسانوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔ بھارت کی پابندیوں کا جواب دینا ضروری تھا۔”

 

 

 

 

 

بھارتی ردعمل اور میڈیا کوریج

 

ابھی تک بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، تاہم بھارتی میڈیا میں اس پیشرفت کو “نرم طاقت کے استعمال کا ناکام تجربہ” قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا رویہ علاقائی تجارتی توازن کو متاثر کر رہا ہے۔

 

 

 

اہم نکات:

 

بھارت کی پابندیوں سے بنگلہ دیش کی چمڑا، ٹیکسٹائل، اور زرعی مصنوعات متاثر

 

معاہدہ منسوخ کرنے سے بھارتی کمپنی کو ممکنہ اربوں روپے کا نقصان

 

دونوں ممالک کے نجی شعبوں میں اضطراب اور بےچینی

 

سفارتی سطح پر رابطے منقطع ہونے کا خطرہ

 

SAARC اور BIMSTEC جیسے علاقائی فورمز پر اثرات

 

 

 

 

علاقائی معیشت پر اثرات

 

بھارت اور بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کے دو اہم تجارتی پارٹنرز ہیں، جن کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 10 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس حالیہ جھگڑے سے:

 

درآمدی و برآمدی نظام میں خلل

 

کاروباری معاہدوں کی سست روی

 

سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی

 

عوامی سطح پر عدم اعتماد میں اضافہ

کا امکان ہے۔

 

 

 

 

بین الاقوامی برادری کی نظر

 

یورپی یونین، چین، اور امریکا جیسے بڑے ممالک جنوبی ایشیا میں استحکام کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ یہ کشیدگی اگر طول پکڑ گئی تو بیرونی طاقتیں ثالثی یا دباو ڈالنے کا عمل شروع کر سکتی ہیں تاکہ صورتحال قابو میں رہے۔

 

 

 

حل کی راہیں: کیا دونوں ممالک مفاہمت کی طرف آ سکتے ہیں؟

 

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ صورتحال وقتی نوعیت کی ہو سکتی ہے اور جلد ہی دونوں ممالک سفارتی سطح پر بات چیت کا آغاز کر کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر بھارت اپنی درآمدی پابندیاں واپس نہیں لیتا تو بنگلہ دیشی حکومت مزید سخت اقدامات کر سکتی ہے، جن میں دیگر بھارتی منصوبوں کی منسوخی بھی شامل ہو سکتی ہے۔

 

 

 

مستقبل میں ممکنہ اقدامات:

 

بھارت کی پابندیوں پر نظر ثانی

 

بنگلہ دیش کی طرف سے WTO میں شکایت

 

SAARC اور BIMSTEC فورمز پر باہمی بات چیت

 

ثالثی کے لیے تیسرے فریق کی مداخلت

 

 

 

 

اختتامی کلمات: سفارتی دانائی کی ضرورت

 

یہ حقیقت ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش جغرافیائی، ثقافتی، اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ وقتی اختلافات کو سفارتی حکمت اور باہمی عزت کے ساتھ حل کرنا ہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ بصورت دیگر، اس کشیدگی کا نقصان صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ عام عوام، کسانوں، مزدوروں اور تاجروں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

 

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔