فیس بک کی انقلابی پیش رفت: AI سے ویڈیو بنانے کی سہولت متعارف

6 / 100 SEO Score

صارفین اب ٹیکسٹ لکھ کر خودکار ویڈیوز تیار کر سکیں گے، ڈیجیٹل مواد کی دنیا میں انقلاب

 

لاہور (ٹیکنالوجی نیوز ڈیسک) — فیس بک (اب میٹا) نے مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں ایک بڑی پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی نئی AI ویڈیو جنریشن ٹیکنالوجی لانچ کر دی ہے، جس کی بدولت صارفین صرف ٹیکسٹ لکھ کر چند لمحوں میں مکمل ویڈیوز تیار کر سکیں گے۔

 

ویڈیو بنانا اب چند سیکنڈز کا کام!

 

اس جدید فیچر کے ذریعے کوئی بھی صارف ایک سادہ جملہ لکھے گا، اور فیس بک کا AI سسٹم اس تحریر کی بنیاد پر ایک مختصر ویڈیو کلپ خودبخود تیار کرے گا۔ اس میں فطری مناظر، متحرک کردار، اور حقیقت سے قریب تر گرافکس شامل ہوں گے۔ یہ ٹیکنالوجی Emu Video اور Make-A-Video جیسے جدید AI ماڈلز پر مبنی ہے۔

 

 

 

کن شعبوں پر اثرات ہوں گے؟

 

نئی AI ویڈیو جنریشن ٹیکنالوجی کا استعمال کئی میدانوں میں انقلابی اثرات مرتب کرے گا:

 

ڈیجیٹل مارکیٹنگ: اشتہارات اور سوشل میڈیا کیمپینز کے لیے تیز تر ویڈیو پروڈکشن

 

تعلیم: سادہ مواد کو دلچسپ اور بصری انداز میں پیش کرنا

 

خبری ادارے: نیوز اپڈیٹس اور رپورٹس کے لیے فوری ویژول تخلیق

 

کنٹینٹ کریئیٹرز: کم وقت میں زیادہ اور بہتر ویڈیوز بنانا ممکن

 

 

 

 

ڈیٹا سیکیورٹی اور پالیسی تحفظات

 

فیس بک نے واضح کیا ہے کہ یہ فیچر صرف مخصوص صارفین کے لیے ابتدائی مرحلے میں جاری کیا جا رہا ہے، اور اس کے لیے سخت ڈیٹا پرائیویسی پالیسیز لاگو ہوں گی۔ اس کا غلط استعمال روکنے کے لیے ہر ویڈیو پر “AI Generated” کا لیبل بھی موجود ہوگا۔

 

 

 

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

 

ٹیکنالوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیچر ڈیجیٹل دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔ معروف AI محقق ڈاکٹر علی رضا نے کہا:

 

> “یہ محض تفریح کا فیچر نہیں، بلکہ آنے والے وقت میں ہر ادارے، ہر طالبعلم، اور ہر کاروباری فرد کے لیے ایک ناگزیر ٹول بن جائے گا۔”

 

 

 

 

 

اختتامیہ: پاکستان میں کیا مواقع ہیں؟

 

پاکستان میں بھی اب ڈیجیٹل میڈیا اور فری لانسنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ فیس بک کا یہ نیا فیچر پاکستانی نوجوانوں کو دنیا بھر میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ایک آسان ذریعہ فراہم کرے گا۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔