جب پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو محفوظ رکھنے کے لیے “پرندے” استعمال کیے!

8 / 100 SEO Score

دنیا کے مختلف ممالک نے اپنی ایٹمی تنصیبات اور دفاعی رازوں کو محفوظ رکھنے کے لیے انوکھے طریقے آزمائے ہیں، لیکن پاکستان کی طرف سے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کے لیے “پرندوں” کے استعمال کی کہانی سن کر ہر کوئی حیرت میں پڑ جاتا ہے۔

 

یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، بلکہ ایک حقیقی خفیہ آپریشن کا حصہ تھی جس کا مقصد دشمن کی فضائی جاسوسی، ڈرونز اور مصنوعی سیاروں سے بچاؤ تھا۔ یہ کہانی پاکستان کے اس دور کی ہے جب عالمی دباؤ، جاسوسی خطرات اور دشمن ممالک کی نظریں کہوٹہ جیسے اہم ایٹمی مراکز پر لگی ہوئی تھیں۔

 

 

 

خفیہ سیکیورٹی منصوبے کی ابتدا

 

1990 کی دہائی میں جب پاکستان کا ایٹمی پروگرام آخری مراحل میں تھا، ملک کو بیرونی مداخلت اور فضائی جاسوسی کا شدید خطرہ تھا۔ امریکی سیٹلائٹس، اسرائیلی جاسوسی نظام، اور بھارتی ریڈارز مسلسل پاکستانی حدود پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

 

یہیں سے ایک خفیہ سیکیورٹی ٹیم نے ایسا منصوبہ تیار کیا جو جدید ٹیکنالوجی کے مقابلے میں قدرتی دفاع کا نمونہ تھا۔

 

 

 

“پرندوں” کا غیر معمولی کردار

 

کہا جاتا ہے کہ کہوٹہ اور دیگر حساس تنصیبات کے گرد ایک خاص قسم کے پرندے چھوڑے گئے۔ ان کا مقصد صرف فطری خوبصورتی میں اضافہ نہیں تھا، بلکہ یہ دشمن ڈرونز، ہیلکاپٹر یا جاسوس پرندوں کی پرواز پر نظر رکھتے تھے۔

 

یہ پرندے کیوں استعمال ہوئے؟

 

1. سیٹلائٹ کی شناخت سے بچاؤ: جب سیٹلائٹ کسی جگہ کی تصویر لیتا ہے اور وہاں ہزاروں پرندے اڑ رہے ہوں، تو تصویر میں تنصیبات کی شناخت ممکن نہیں رہتی۔

 

 

2. ڈرون کی رکاوٹ: ان پرندوں کی ٹریننگ ایسی کی گئی کہ وہ فضا میں اجنبی اشیاء (جیسے چھوٹے ڈرون) دیکھ کر ان پر حملہ آور ہوتے۔

 

 

3. نقلی سرگرمیاں: کچھ علاقوں میں ان پرندوں کی نقل و حرکت سے سیٹلائٹ کو غلط اشارے بھی دیے جاتے تاکہ اصل سائٹس کی لوکیشن چھپی رہے۔

 

 

 

 

 

یہ پرندے کون سے تھے؟

 

اس منصوبے کے لیے خاص طور پر فاولکن، شاہین، اور چیل جیسی بڑی اقسام کے پرندے چنے گئے، جنہیں خاص تربیت دی گئی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق ان پرندوں پر “مائیکرو چپس” بھی نصب کی گئیں تاکہ ان کی پرواز کا ڈیٹا اور مقام کنٹرول میں رہے۔

 

 

 

موساد، سی آئی اے اور را کی نظر

 

پاکستانی سیکیورٹی ماہرین جانتے تھے کہ صرف مقامی احتیاط کافی نہیں۔ دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں “کہوٹہ”، “چشمہ”، اور “کوہ کمر” جیسے مقامات پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔

 

اسی دوران موساد نے مبینہ طور پر پاکستان میں جاسوس پرندے داخل کرنے کی کوشش کی۔ ایک ایسے ہی پرندے کو سرحدی علاقے میں پکڑا بھی گیا، جس پر اسرائیلی ساختہ سینسر نصب تھا۔

 

 

 

“سائبر برڈ وار” کا آغاز؟

 

کچھ دفاعی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ پرندے نہ صرف فزیکل محافظ تھے، بلکہ الیکٹرانک سگنلز کو بھی متاثر کرتے تھے۔ ان کے پروں پر خاص میٹل کوٹنگ یا انسولیشن تھی جو “ریڈار بلاکنگ” کا کام کرتی تھی۔

 

یہ دعوے اب بھی متنازع ہیں، لیکن کئی رپورٹس ان معلومات کو “جزوی حقیقت” تسلیم کرتی ہیں۔

 

 

 

کیا دنیا نے سیکھا؟

 

پاکستان کے اس طریقے نے دنیا بھر کی سیکیورٹی ایجنسیز کو چونکا دیا۔ چین، ایران، اور روس نے بھی “پرندوں کی مدد سے جاسوسی روکنے” کی تکنیک پر تحقیق شروع کی۔ امریکہ نے بعد میں “Bird Simulation Software” تیار کیا، جو سیٹلائٹ تصاویر میں اصلی پرندوں اور فوجی تنصیبات کو الگ کر سکے۔

 

 

 

پاکستانی ماہرین کی خاموش کامیابی

 

یہ آپریشن عوام کے علم میں نہیں آیا، نہ ہی کبھی کسی سرکاری ادارے نے اس کا باضابطہ اعتراف کیا۔ لیکن دفاعی تجزیہ کاروں اور پرانے سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ:

 

> “یہ پرندے صرف قدرت کا تحفہ نہیں، قومی سلامتی کے محافظ بھی بنے۔”

 

 

 

 

 

نتیجہ: قدرتی ٹیکنالوجی بمقابلہ مصنوعی ذہانت

 

آج کے دور میں جب ہر چیز AI، ڈرون اور سیٹلائٹ کے رحم و کرم پر ہو، پاکستان کی طرف سے قدرتی حکمتِ عملی کا یہ استعمال اپنی مثال آپ ہے۔ یہ نہ صرف ہماری تکنیکی ذہانت کی علامت ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ بعض اوقات قدرت انسان سے زیادہ سمجھدار ہوتی ہے۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔