دنیا کی تاریخ میں کئی حملے ایسے ہیں جنہوں نے صرف ایک ملک نہیں، بلکہ عالمی منظرنامے پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ “آپریشن اوسیراک” (Operation Opera)، جسے کچھ حلقے “آپریشن بابیلون” بھی کہتے ہیں، 7 جون 1981 کو اسرائیل کی طرف سے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر کیا گیا ایک خفیہ اور حیرت انگیز فضائی حملہ تھا۔ اس حملے نے مشرق وسطیٰ کی سیاست، ایٹمی پھیلاؤ کے رجحانات، اور بین الاقوامی قانون پر کئی سوالات کھڑے کر دیے۔
—
حملے کا پس منظر
1970 کی دہائی میں عراق نے فرانس کی مدد سے ایک ایٹمی ری ایکٹر “اوسیراک” (Osirak) بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ اگرچہ عراق نے دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ صرف “پرامن مقاصد” کے لیے ہے، مگر اسرائیل کو خدشہ تھا کہ صدام حسین اس ٹیکنالوجی کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
اوسیراک ری ایکٹر:
مقام: 18 کلومیٹر جنوب مشرقی بغداد
تعاون: فرانس + عراق
منصوبے کا نام: Tammuz 1 and 2 reactors
اسرائیل کی تشویش: “عراق خفیہ طور پر ایٹم بم تیار کر سکتا ہے”
—
اسرائیلی انٹیلیجنس اور منصوبہ بندی
موساد (اسرائیلی خفیہ ایجنسی) نے عراق کے ایٹمی پروگرام پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ ری ایکٹر مکمل ہونے کے قریب ہے، تو اسرائیل کی قیادت، خاص طور پر وزیراعظم مناخیم بیگن اور فضائیہ کے سربراہ ڈیوڈ ایویاتار نے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا۔
“بیگن ڈاکٹرائن”:
اس پالیسی کے تحت اسرائیل نے یہ واضح کیا کہ وہ کسی بھی ایسے دشمن ملک کو ایٹمی طاقت بننے سے پہلے ختم کرے گا جو اسے تباہ کرنے کی دھمکی دے۔
—
“آپریشن اوسیراک” کا دن
7 جون 1981
– اسرائیلی فضائیہ کے 8 F-16 لڑاکا طیاروں اور 6 F-15 طیاروں نے جنوبی اسرائیل سے اڑان بھری۔
– انہیں 1600 کلومیٹر کا سفر کر کے عراقی فضائی حدود میں داخل ہونا تھا۔
– حملہ صرف 80 سیکنڈز میں مکمل ہوا۔
– اسرائیلی طیاروں نے اوسیراک ری ایکٹر پر 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بم گرائے، اور پوری تنصیب کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
تفصیل معلومات
حملہ آور طیارے F-16 اور F-15
طیاروں کی تعداد 14
سفر کا دورانیہ 90 منٹ فی طرف
حملے کا دورانیہ 1.5 منٹ
ہلاکتیں 10 (فرانسیسی اور عراقی انجینئرز)
—
بین الاقوامی ردعمل
🌍 عالمی برادری:
اقوام متحدہ نے اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے “خلافِ بین الاقوامی قانون” قرار دیا۔
امریکہ (اس وقت رونالڈ ریگن صدر تھے) نے رسمی طور پر مخالفت کی، مگر اندرونی سطح پر اسرائیل کی حمایت جاری رکھی۔
🇮🇶 عراق:
صدام حسین نے حملے کو “بزدلانہ کارروائی” کہا اور اعلان کیا کہ عراق ایٹمی پروگرام جاری رکھے گا۔
حملے کے بعد فرانسیسی تعاون تقریباً ختم ہو گیا۔
—
حملے کے اثرات اور اہمیت
1. ایٹمی پھیلاؤ کی روک تھام
– اسرائیل نے مؤثر طریقے سے عراق کا ایٹمی منصوبہ تباہ کر کے خطے کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا (اس کا دعویٰ)۔
2. عسکری حکمت عملی کی نئی مثال
– “Preemptive Strike” کا تصور تقویت پایا۔
3. سیاسی اثرات
– اسرائیل کی دنیا بھر میں تنقید ہوئی، مگر کئی ممالک نے اندرونی طور پر اسے “ضروری قدم” کہا۔
—
اسرائیل کا موقف
اسرائیل کے وزیراعظم بیگن کا مؤقف تھا:
> “ہم اپنے بچوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتے کہ ہم خاموش رہے اور عراق نے ایٹمی ہتھیار بنا لیے۔”
—
بعد کے واقعات
عراق نے کبھی ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے۔
خفیہ طور پر عراق نے پروگرام جاری رکھنے کی کوشش کی، مگر 1991 کی خلیجی جنگ میں مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
اقوام متحدہ نے بعد میں عراق کے ایٹمی پروگرام کو مکمل ناکام قرار دیا۔
—
نتیجہ: ایک حملہ، کئی زاویے
“آپریشن اوسیراک” ایک ایسا واقعہ ہے جو اب بھی بین الاقوامی قانون، خودمختاری، اور دفاعی حکمت عملی پر بحث کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ اقدام درست تھا؟ کیا یہ عالمی امن کے لیے خطرہ تھا یا حفاظتی ضرورت؟ یہ سوال آج بھی عالمی سطح پر زیربحث ہیں۔















Leave a Reply