بچوں میں چشمہ لگانے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

Oplus_16908288
8 / 100 SEO Score

اسباب، علامات، اور احتیاطی تدابیر

 

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ اسکول جانے والے کئی بچے بہت چھوٹی عمر میں چشمہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ والدین فکرمند ہیں، اساتذہ پریشان، اور ماہرینِ صحت خبردار۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کے پیچھے صرف موبائل فونز اور اسکرین کا استعمال ہے یا کچھ اور عوامل بھی شامل ہیں؟

 

اس مضمون میں ہم اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات، علامات، اثرات اور ممکنہ حل پر بات کریں گے تاکہ والدین بروقت اقدام کر کے اپنے بچوں کی بینائی کو محفوظ رکھ سکیں۔

 

 

 

👁️ چشمہ لگانے کی بنیادی وجوہات

 

1. 📱 اسکرین کا مسلسل استعمال

 

اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپس اور ٹی وی کا استعمال بچوں میں آنکھوں کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے۔

بچے گھنٹوں موبائل گیمز، یوٹیوب یا سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں، جس سے ان کی آنکھوں پر مسلسل دباؤ پڑتا ہے۔

 

2. 📚 مطالعہ میں بے ترتیبی

 

اکثر بچے لیٹ کر، بہت قریب سے یا کم روشنی میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ اس سے آنکھوں پر غیر ضروری دباؤ پڑتا ہے جو نظر کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔

 

3. 🧬 جینیاتی اثر

 

اگر والدین یا قریبی رشتہ داروں کو نظر کی کمزوری ہے، تو بچوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

 

4. 🌇 کھلی فضا میں وقت کی کمی

 

تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ جو بچے روزانہ کھلی فضا میں (outdoor) کھیلتے ہیں، ان میں نظر کی کمزوری کا امکان کم ہوتا ہے۔ لیکن شہری زندگی میں کھیل کے میدان اور کھلی فضا محدود ہو چکی ہے۔

 

 

 

🔍 علامات: کب سمجھیں کہ بچے کو چشمے کی ضرورت ہے؟

 

بار بار آنکھیں رگڑنا

 

قریب یا دور کی چیزوں کو دیکھنے میں دشواری

 

بورڈ یا اسکرین کو جھک کر یا آنکھوں کو سکوڑ کر دیکھنا

 

بار بار سر درد کی شکایت

 

ٹی وی یا موبائل بہت قریب سے دیکھنا

 

پڑھائی میں عدم دلچسپی یا پرفارمنس میں کمی

 

 

اگر ان میں سے کوئی علامت نظر آئے تو فوری طور پر آنکھوں کے ماہر (Eye Specialist) سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

 

 

 

🏥 کون سی بیماریاں بچوں کو چشمہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں؟

 

بیماری کا نام وضاحت

 

مایوپیا (Myopia) دور کی چیزیں دھندلی نظر آتی ہیں (نزدیک کی نظر ٹھیک ہوتی ہے)

ہائیپروپیا (Hyperopia) نزدیک کی چیزیں صاف نہیں دکھتیں، دور کی چیزیں واضح ہوتی ہیں

ایسٹگمیتزم (Astigmatism) بینائی میں دھندلاپن، شکلیں بگڑی ہوئی نظر آتی ہیں

سست آنکھ (Lazy Eye) ایک آنکھ کمزور ہو جاتی ہے اور دماغ اُس کی تصویر کو نظر انداز کرنے لگتا ہے

 

 

 

 

📈 اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

 

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو چشمہ لگانے کی ضرورت ہوگی

 

پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں میں تقریباً 20% بچے نظر کی کمزوری کا شکار ہیں

 

شہری علاقوں میں بچوں کی نظر کی کمزوری دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے

 

 

 

 

👨‍👩‍👧 والدین کو کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؟

 

✅ 1. بچوں کا اسکرین ٹائم محدود کریں

 

ہر 20 منٹ بعد 20 سیکنڈ کے لیے 20 فٹ دور دیکھنے کا اصول (20-20-20 Rule) اپنائیں۔

 

✅ 2. سال میں ایک بار آنکھوں کا معائنہ

 

چاہے کوئی شکایت نہ ہو، سالانہ Eye Checkup ضرور کروائیں۔

 

✅ 3. کھلی فضا میں وقت گزارنے کی عادت

 

کم از کم روزانہ ایک گھنٹہ بچوں کو باہر کھیلنے کی اجازت دیں۔

 

✅ 4. متوازن غذا

 

وٹامن A، C، اور E، اور اومیگا-3 فیٹی ایسڈ سے بھرپور غذا دیں، جیسے:

 

گاجر

 

پالک

 

مچھلی

 

اخروٹ

 

انڈے

 

 

✅ 5. مطالعے کا درست طریقہ

 

اچھی روشنی میں، سیدھی کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔

 

 

 

🧒 بچوں کے چشمہ لگانے سے نفسیاتی اثرات

 

بعض بچے چشمہ لگانے پر خود کو مختلف یا کمزور محسوس کرتے ہیں، جس سے ان کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔

 

حل:

 

انہیں یہ باور کرائیں کہ چشمہ صحت مند زندگی کی علامت ہے

 

مشہور شخصیات کی مثال دیں جو چشمہ لگاتی ہیں

 

خوبصورت اور فیشن ایبل فریم کا انتخاب کریں تاکہ بچے خوشی سے پہنیں

 

 

 

 

🔮 کیا چشمے سے نجات ممکن ہے؟

 

اکثر والدین پوچھتے ہیں کہ کیا چشمہ مستقل ہوتا ہے؟

جواب یہ ہے:

 

اگر مسئلہ عارضی ہو، تو وقت پر علاج اور احتیاط سے نظر بہتر ہو سکتی ہے

 

مگر زیادہ تر کیسز میں چشمہ مستقل ہوتا ہے

 

بالغ ہونے کے بعد بعض صورتوں میں Lasik یا دیگر سرجری ممکن ہے

 

 

 

 

📜 نتیجہ

 

بچوں میں چشمہ لگانے کا بڑھتا رجحان ایک صحت عامہ کا سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

اس کا تعلق صرف موبائل یا ٹی وی سے نہیں بلکہ ایک مجموعی طرزِ زندگی سے ہے۔

وقت پر تشخیص، مناسب احتیاط، اور والدین کی سنجیدگی ہی بچوں کی بینائی کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔