تھانہ سول لائن میں مقدمہ درج، ملزم کو بچانے میں پولیس پر تحفظ فراہم کرنے کا الزام، متاثرہ لڑکی کی دہائی
پنجاب پولیس کے افسران پر لگنے والے سنگین الزامات میں ایک اور افسوسناک اضافہ۔ بہاولپور میں تعینات سب انسپکٹر احتشام اسلم پر ایک یتیم لڑکی نے کئی ماہ تک مسلسل زیادتی اور شادی و نوکری کا جھانسہ دینے کا سنگین الزام عائد کر دیا۔ متاثرہ لڑکی کے مطابق پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود ملزم کو گرفتار کرنے کے بجائے اسے تحفظ فراہم کر رہی ہے، جس سے انصاف کے حصول کی امید دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
—
واقعے کی تفصیلات
مشتاق کالونی کی رہائشی ایک خاتون نے تھانہ سول لائن میں درج کروائی گئی ایف آئی آر نمبر 721/25، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت، یہ الزام عائد کیا ہے کہ:
“میں ایک یتیم لڑکی ہوں اور مجھے زندگی میں نوکری کی سخت ضرورت تھی۔ 19 ستمبر 2024 کو ایک پولیس ریڈ کے دوران سب انسپکٹر احتشام اسلم نے میرا موبائل نمبر لیا اور وعدہ کیا کہ وہ میری نوکری کا بندوبست کروا دے گا۔”
“13 مارچ 2025 کو اس نے مجھے یونیورسٹی چوک بلایا۔ شام 6 بجے جب میں وہاں پہنچی تو اس نے مجھے کار میں بٹھا کر ایک نامعلوم بلڈنگ کی اوپری منزل پر لے جا کر اسلحے کے زور پر میری عصمت دری کی۔”
“احتشام مجھے مسلسل دھمکاتا رہا کہ اگر میں نے کسی کو کچھ بتایا تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتا رہا کہ جلد شادی کر لے گا اور پولیس میں نوکری بھی دلوا دے گا۔”
—
پولیس کا رویہ اور متاثرہ کی فریاد
متاثرہ لڑکی کا کہنا ہے کہ:
> “میں نے خوف، شرم، اور عزت کے ڈر سے کئی ماہ تک یہ سب چھپائے رکھا، مگر جب برداشت کی حد ختم ہوئی تو اپنی والدہ اور گھر والوں کو ساری حقیقت بتائی۔”
“ہم نے ہمت کر کے تھانہ سول لائن میں مقدمہ درج کروایا، مگر پولیس کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔”
“ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اسے ضمانت کروانے کا پورا موقع دیا جا رہا ہے۔”
“ایسا لگتا ہے جیسے پولیس اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے پوری طاقت لگا رہی ہے۔”
—
احتشام اسلم کا ماضی: عوامی رویہ بھی ہتک آمیز رہا
ذرائع کے مطابق، ٹی ایس آئی احتشام اسلم کی ماضی کی پوسٹنگ تھانہ بغداد الجدید میں رہی ہے جہاں عوام اور سائلین سے ان کا رویہ بھی ہمیشہ ہتک آمیز اور بدتمیزانہ بتایا گیا۔
تھانے میں آنے والے سائلین سے بدسلوکی، نامناسب مطالبات، اور دھونس دھاندلی کی شکایات ماضی میں بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے، لیکن شکایت درج کرانا ممکن نہ تھا۔
—
عوامی ردعمل اور سول سوسائٹی کا مطالبہ
اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد شہری اور سول سوسائٹی کے حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے:
“ایسے اہلکار جنہیں عوام کے جان و مال کا محافظ ہونا چاہیے، اگر وہی عزتوں کے لٹیرے بن جائیں تو عوام کس سے انصاف کی امید رکھے؟”
“ایس پی بہاولپور، آر پی او ملتان، اور آئی جی پنجاب کو اس واقعہ کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔”
—
متاثرہ لڑکی کا مطالبہ
متاثرہ لڑکی نے قوم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“مجھے انصاف چاہیے۔ میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں یتیم تھی، مجبور تھی، اور نوکری کی تلاش میں تھی۔”
“اگر ایسے عناصر کو سزا نہ دی گئی تو نہ جانے اور کتنی لڑکیاں ان کے چنگل میں پھنسیں گی۔”
—
پولیس کا مؤقف؟ خاموشی یا تحفظ؟
تاحال پولیس کی جانب سے اس مقدمے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق:
ملزم احتشام اسلم ابھی بھی آزاد گھوم رہا ہے۔
متاثرہ کے اہلخانہ پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
پولیس کی اندرونی ملی بھگت کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔
—
مقدمے کی موجودہ صورتحال
تفصیل معلومات
ملزم کا نام احتشام اسلم (سب انسپکٹر، پنجاب پولیس)
متاثرہ یتیم خاتون، مشتاق کالونی کی رہائشی
مقام بہاولپور، تھانہ سول لائن
تاریخ وقوعہ 13 مارچ 2025
مقدمہ درج ہونے کی تاریخ حالیہ (جون 2025)
ایف آئی آر نمبر 25/721
جرم دفعہ 376 (زیادتی)
پولیس رویہ تفتیش سست، ملزم کو تحفظ
—
اہم نکات
متاثرہ خاتون کے مطابق احتشام اسلم نے پہلے نوکری کا جھانسہ دیا، پھر اسلحے کے زور پر زیادتی کی۔
کئی ماہ تک جھانسہ دے کر خاموش رکھا، جب وعدے وفا نہ ہوئے تو متاثرہ نے ہمت کر کے ایف آئی آر درج کروائی۔
پولیس کی جانب سے مجرمانہ خاموشی اور تحفظ کا الزام متاثرہ اور عوامی حلقوں کی جانب سے سامنے آیا۔
احتشام اسلم کا ماضی کا ریکارڈ بھی مشکوک، تھانہ بغداد جدید میں بھی سائلین سے ہتک آمیز سلوک کی شکایات موجود۔
—
نتیجہ اور مطالبہ
یہ واقعہ نہ صرف بہاولپور پولیس بلکہ پورے نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو عوام کا نظام انصاف سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔
قوم نیوز سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ:
واقعہ کی مکمل غیرجانبدار تحقیقات کرائی جائے۔
ملزم کو فوری گرفتار کر کے عدالتی کارروائی کے ذریعے قرار واقعی سزا دی جائے۔
پولیس کے اندر موجود ایسے عناصر کی چھان بین کی جائے جو ملزمان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
Leave a Reply