مشرقِ وسطیٰ میں جاری بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ایک انتہائی سخت بیان دیتے ہوئے امریکہ کو اسرائیلی حملوں میں براہِ راست شریک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “جو خون بہا ہے، اس میں امریکہ کے ہاتھ بھی رنگے ہوئے ہیں، اور ہم اس خمیازے کو فراموش نہیں کریں گے۔”
📰 پس منظر: اسرائیل کے حملے اور ایران کا جوابی ردعمل
گزشتہ ہفتے اسرائیلی فضائیہ نے شام اور ایران کے اندر ممکنہ “دہشتگرد ٹھکانوں” کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ایران کے مطابق یہ حملے نہ صرف ان کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی تھے، بلکہ ان میں امریکہ نے انٹیلی جنس، ٹیکنالوجی، اور سیاسی حمایت فراہم کر کے اسرائیل کی براہِ راست پشت پناہی کی۔
ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا:
> “واشنگٹن کا کردار اب پردے کے پیچھے نہیں رہا۔ اسرائیل کے ہر میزائل میں امریکی بارود ہے، اور ہر نشانہ امریکی رضامندی سے چُنا گیا ہے۔”
—
📌 اہم نکات جو وزیر خارجہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بیان کیے:
امریکہ نے اسرائیل کو مکمل تکنیکی اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کی۔
حملے میں ایران کی خودمختاری کو پامال کیا گیا۔
ایران کا ردعمل صرف اسرائیل تک محدود نہیں رہے گا، امریکہ بھی جواب دہ ہوگا۔
ایران نے اقوام متحدہ میں باضابطہ شکایت درج کروانے کا عندیہ دیا۔
—
🔥 عالمی تناظر: ایران کا موقف، امریکہ کا دفاع
ملک ردعمل
ایران امریکہ اسرائیلی جارحیت میں برابر کا شریک ہے
امریکہ “ہم اسرائیل کے دفاع میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں، ایران کے الزامات بے بنیاد ہیں”
روس “ایران کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے”
چین “امریکہ اور اسرائیل نے خطے کو دھماکہ خیز بنا دیا ہے”
—
🛰️ ایران کا ممکنہ ردعمل
ذرائع کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب (IRGC) نے امریکی فوجی اڈوں کے قریب اپنی نگرانی بڑھا دی ہے۔ عراق اور شام میں امریکی مفادات پر حملے کے خدشات کے پیش نظر پینٹاگون نے علاقائی فوجی الرٹ جاری کر دیا ہے۔
ایرانی ذرائع کے مطابق:
عراق میں امریکی اڈے عین الاسد اور اربيل پر راکٹ سسٹم نصب کیے گئے۔
یمن اور لبنان میں موجود ایران نواز گروپس کو تیاری کی ہدایت دے دی گئی۔
ایران نے اپنا “بیلسٹک میزائل الرٹ سسٹم” بھی چالو کر دیا ہے۔
—
💬 تجزیہ کاروں کی رائے
بین الاقوامی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کا امریکہ کو براہِ راست نشانہ بنانا ایک نیا اسٹریٹیجک موڑ ہے۔ اگر ایران نے کسی امریکی مفاد پر حملہ کیا، تو خطے میں بڑی جنگ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر حامد رضا کا کہنا ہے:
> “یہ اب اسرائیل اور ایران کی جنگ نہیں رہی، بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور ایران کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز ہے۔”
—
📣 ایران کا عالمی اداروں سے مطالبہ
ایران نے اقوام متحدہ اور او آئی سی (OIC) سے مطالبہ کیا ہے کہ:
اسرائیلی جارحیت کی تحقیقات کروائی جائیں۔
امریکہ کی مداخلت اور کردار پر سوالات اٹھائے جائیں۔
خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے غیرجانبدارانہ اقدامات کیے جائیں۔
—
🔚 نتیجہ: کیا خطہ جنگ کی طرف جا رہا ہے؟
ایرانی وزیر خارجہ کا واضح بیان عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایران اگر اپنے الفاظ پر عمل درآمد کرتا ہے تو امریکہ کے مفادات براہِ راست نشانے پر آ سکتے ہیں، جس سے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کی معاشی اور سیاسی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے۔
Leave a Reply