ظلم کا راج یا ٹیکس کی آندھی؟ تنخواہ دار طبقہ کتنا برداشت کرے گا؟

8 / 100 SEO Score

 

پاکستان میں جہاں مہنگائی روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے، وہیں تنخواہ دار طبقہ ہر سمت سے ٹیکسوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ ایک طرف آمدنی پر انکم ٹیکس، تو دوسری جانب روزمرہ کے خرچ پر مختلف بالواسطہ ٹیکسز۔ اور اگر کوئی شخص تنخواہ بینک سے نکلوانا چاہے، تو وہاں بھی اس سے فیس اور ٹیکس کی صورت میں ایک اور کٹوتی کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس طبقے کے ساتھ ہو رہا ہے جو نہ چوری کرتا ہے، نہ کرپشن، بلکہ اپنی ماہانہ آمدنی کے بل بوتے پر گھر چلاتا ہے۔

 

تنخواہ ملنے سے پہلے ہی کٹوتی!

 

پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کو سب سے پہلے انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ بنیاد پر انکم ٹیکس منہا کیا جاتا ہے، جو ان کی مجموعی آمدنی کے مطابق مختلف شرحوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ یعنی:

 

اگر کسی ملازم کی تنخواہ 1 لاکھ روپے ہے، تو اسے اوسطاً 10،000 سے 25،000 روپے تک انکم ٹیکس کے طور پر کٹوانا پڑتا ہے۔

 

یہ وہ رقم ہے جو وہ کبھی ہاتھ میں نہیں لیتا، بلکہ براہِ راست ایف بی آر کو پہنچ جاتی ہے۔

 

 

آمدنی کی حد ممکنہ انکم ٹیکس (سالانہ) ماہانہ کٹوتی

 

50,000 – 100,000 10,000 – 50,000 800 – 4,200

100,000 – 200,000 50,000 – 150,000 4,200 – 12,500

200,000 سے زائد 200,000 سے زائد 15,000+

 

 

اے ٹی ایم سے نکلو، بینک کو دو!

 

اب بات کرتے ہیں اُس لمحے کی جب ملازم اپنی تنخواہ نکالنے کے لیے اے ٹی ایم مشین کی طرف جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ چلو اب خرچ کے لیے کچھ پیسے نکلوا لوں۔ لیکن جیسے ہی وہ اے ٹی ایم سے رقم نکالتا ہے، ایک اور چھری اس کی جیب پر چلتی ہے:

 

ہر بار اے ٹی ایم سے کیش نکالنے پر ایک خاص حد سے زیادہ نکالنے پر ویڈ ہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

 

بینک بھی فی ٹرانزیکشن اپنی سروس فیس وصول کرتا ہے۔

 

 

یعنی:

 

اگر کوئی شخص 25،000 روپے نکالتا ہے، تو 100 سے 300 روپے تک کٹوتی ہو سکتی ہے۔

 

سال بھر میں اگر وہ 5 لاکھ روپے نکالے، تو ہزاروں روپے صرف ٹرانزیکشنز کی فیس میں جا سکتے ہیں۔

 

 

خریداری پر پھر ٹیکس!

 

اب وہی تنخواہ دار طبقہ جب بازار جاتا ہے اور بنیادی ضروریات کی اشیاء خریدتا ہے، تب بھی ٹیکس اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ہر چیز پر:

 

جی ایس ٹی (General Sales Tax) یا

 

وی اے ٹی (Value Added Tax) یا

 

پیٹرولیم لیوی یا

 

سیلز ٹیکس برائے خدمات

 

 

عائد ہوتے ہیں۔

 

یہاں تک کہ:

 

ایک سادہ صابن خریدیں، تو 17 فیصد جی ایس ٹی

 

بجلی کا بل بھریں، تو فکسڈ چارجز + ٹیکس

 

موبائل فون استعمال کریں، تو سروس چارجز + ٹیکس

 

 

جو چیز خریدی، اس پر ٹوکن ٹیکس بھی؟

 

یہاں ختم نہیں ہوتا، اگر آپ نے کوئی چیز خریدی ہے، خاص طور پر گاڑی یا موٹر سائیکل، تو آپ کو ہر سال ٹوکن ٹیکس بھی دینا ہوگا۔ گویا:

 

پہلے گاڑی خریدنے پر سیلز ٹیکس دیا

 

پھر اس پر رجسٹریشن فیس دی

 

اب ہر سال ٹوکن ٹیکس بھی دینا پڑے گا

 

 

یہ سوال اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ:

 

> “یہ سب کچھ آخر تنخواہ دار طبقہ ہی کیوں برداشت کرے؟ کیا یہی سب سے آسان ہدف ہے؟”

 

 

 

معاشی انصاف کی غیر موجودگی

 

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن، ٹیکس چوری، اور بےقاعدگیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جہاں:

 

بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس معافی دی جاتی ہے

 

بے نامی اثاثوں والے سیاستدان محفوظ رہتے ہیں

 

کرپٹ بیوروکریٹس اپنی تنخواہ کے علاوہ اربوں کی جائیداد کے مالک ہوتے ہیں

 

 

وہیں تنخواہ دار طبقے کو “شفاف” کہہ کر ہر قسم کا ٹیکس لاگو کر دیا جاتا ہے۔

 

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

 

ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں:

 

> “اگر حکومت تنخواہ دار طبقے پر انحصار کرنا بند نہ کرے اور ٹیکس نیٹ میں غیر رسمی شعبے کو شامل نہ کرے، تو نہ صرف معیشت دباؤ کا شکار رہے گی بلکہ طبقاتی تفریق بھی بڑھے گی۔”

 

 

 

حکومت سے مطالبہ

 

عوام اور خصوصاً تنخواہ دار طبقے کی طرف سے حکومت سے درج ذیل مطالبات سامنے آ رہے ہیں:

 

انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی جائے

 

بینک ٹرانزیکشنز پر فیس و ٹیکس ختم کیے جائیں

 

غیر رسمی شعبے اور بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے

 

خریداری پر عائد ہونے والے بالواسطہ ٹیکسز کم کیے جائیں

 

 

 

 

نتیجہ: ظلم کا راج کب ختم ہوگا؟

 

یہ بات اب چھپ نہیں سکتی کہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ ایک “خاموش شکار” بنتا جا رہا ہے۔ ہر قدم پر اس سے ٹیکس لیا جا رہا ہے، جبکہ باقی طبقات کو یا تو ریلیف دیا جاتا ہے یا وہ مکمل طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔

 

یہ مضمون دراصل ایک پکار ہے اُن تمام حکومتی اداروں کے لیے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انصاف، مساوات اور معاشی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

 

ورنہ، وہ دن دور نہیں جب تنخواہ دار طبقہ سوال کرے گا:

 

> “ہم نے کون سا جرم کیا ہے کہ ہمیں ہر ماہ سزا دی جاتی ہے؟”

پاکستان میں جہاں مہنگائی روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے، وہیں تنخواہ دار طبقہ ہر سمت سے ٹیکسوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ ایک طرف آمدنی پر انکم ٹیکس، تو دوسری جانب روزمرہ کے خرچ پر مختلف بالواسطہ ٹیکسز۔ اور اگر کوئی شخص تنخواہ بینک سے نکلوانا چاہے، تو وہاں بھی اس سے فیس اور ٹیکس کی صورت میں ایک اور کٹوتی کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس طبقے کے ساتھ ہو رہا ہے جو نہ چوری کرتا ہے، نہ کرپشن، بلکہ اپنی ماہانہ آمدنی کے بل بوتے پر گھر چلاتا ہے۔

تنخواہ ملنے سے پہلے ہی کٹوتی!

پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کو سب سے پہلے انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ بنیاد پر انکم ٹیکس منہا کیا جاتا ہے، جو ان کی مجموعی آمدنی کے مطابق مختلف شرحوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ یعنی:

اگر کسی ملازم کی تنخواہ 1 لاکھ روپے ہے، تو اسے اوسطاً 10،000 سے 25،000 روپے تک انکم ٹیکس کے طور پر کٹوانا پڑتا ہے۔

یہ وہ رقم ہے جو وہ کبھی ہاتھ میں نہیں لیتا، بلکہ براہِ راست ایف بی آر کو پہنچ جاتی ہے۔

آمدنی کی حد ممکنہ انکم ٹیکس (سالانہ) ماہانہ کٹوتی

50,000 – 100,000 10,000 – 50,000 800 – 4,200
100,000 – 200,000 50,000 – 150,000 4,200 – 12,500
200,000 سے زائد 200,000 سے زائد 15,000+

اے ٹی ایم سے نکلو، بینک کو دو!

اب بات کرتے ہیں اُس لمحے کی جب ملازم اپنی تنخواہ نکالنے کے لیے اے ٹی ایم مشین کی طرف جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ چلو اب خرچ کے لیے کچھ پیسے نکلوا لوں۔ لیکن جیسے ہی وہ اے ٹی ایم سے رقم نکالتا ہے، ایک اور چھری اس کی جیب پر چلتی ہے:

ہر بار اے ٹی ایم سے کیش نکالنے پر ایک خاص حد سے زیادہ نکالنے پر ویڈ ہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

بینک بھی فی ٹرانزیکشن اپنی سروس فیس وصول کرتا ہے۔

یعنی:

اگر کوئی شخص 25،000 روپے نکالتا ہے، تو 100 سے 300 روپے تک کٹوتی ہو سکتی ہے۔

سال بھر میں اگر وہ 5 لاکھ روپے نکالے، تو ہزاروں روپے صرف ٹرانزیکشنز کی فیس میں جا سکتے ہیں۔

خریداری پر پھر ٹیکس!

اب وہی تنخواہ دار طبقہ جب بازار جاتا ہے اور بنیادی ضروریات کی اشیاء خریدتا ہے، تب بھی ٹیکس اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ہر چیز پر:

جی ایس ٹی (General Sales Tax) یا

وی اے ٹی (Value Added Tax) یا

پیٹرولیم لیوی یا

سیلز ٹیکس برائے خدمات

عائد ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ:

ایک سادہ صابن خریدیں، تو 17 فیصد جی ایس ٹی

بجلی کا بل بھریں، تو فکسڈ چارجز + ٹیکس

موبائل فون استعمال کریں، تو سروس چارجز + ٹیکس

جو چیز خریدی، اس پر ٹوکن ٹیکس بھی؟

یہاں ختم نہیں ہوتا، اگر آپ نے کوئی چیز خریدی ہے، خاص طور پر گاڑی یا موٹر سائیکل، تو آپ کو ہر سال ٹوکن ٹیکس بھی دینا ہوگا۔ گویا:

پہلے گاڑی خریدنے پر سیلز ٹیکس دیا

پھر اس پر رجسٹریشن فیس دی

اب ہر سال ٹوکن ٹیکس بھی دینا پڑے گا

یہ سوال اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ:

> “یہ سب کچھ آخر تنخواہ دار طبقہ ہی کیوں برداشت کرے؟ کیا یہی سب سے آسان ہدف ہے؟”

 

معاشی انصاف کی غیر موجودگی

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن، ٹیکس چوری، اور بےقاعدگیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جہاں:

بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس معافی دی جاتی ہے

بے نامی اثاثوں والے سیاستدان محفوظ رہتے ہیں

کرپٹ بیوروکریٹس اپنی تنخواہ کے علاوہ اربوں کی جائیداد کے مالک ہوتے ہیں

وہیں تنخواہ دار طبقے کو “شفاف” کہہ کر ہر قسم کا ٹیکس لاگو کر دیا جاتا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں:

> “اگر حکومت تنخواہ دار طبقے پر انحصار کرنا بند نہ کرے اور ٹیکس نیٹ میں غیر رسمی شعبے کو شامل نہ کرے، تو نہ صرف معیشت دباؤ کا شکار رہے گی بلکہ طبقاتی تفریق بھی بڑھے گی۔”

 

حکومت سے مطالبہ

عوام اور خصوصاً تنخواہ دار طبقے کی طرف سے حکومت سے درج ذیل مطالبات سامنے آ رہے ہیں:

انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی جائے

بینک ٹرانزیکشنز پر فیس و ٹیکس ختم کیے جائیں

غیر رسمی شعبے اور بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے

خریداری پر عائد ہونے والے بالواسطہ ٹیکسز کم کیے جائیں

 

نتیجہ: ظلم کا راج کب ختم ہوگا؟

یہ بات اب چھپ نہیں سکتی کہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ ایک “خاموش شکار” بنتا جا رہا ہے۔ ہر قدم پر اس سے ٹیکس لیا جا رہا ہے، جبکہ باقی طبقات کو یا تو ریلیف دیا جاتا ہے یا وہ مکمل طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔

یہ مضمون دراصل ایک پکار ہے اُن تمام حکومتی اداروں کے لیے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انصاف، مساوات اور معاشی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

ورنہ، وہ دن دور نہیں جب تنخواہ دار طبقہ سوال کرے گا:

> “ہم نے کون سا جرم کیا ہے کہ ہمیں ہر ماہ سزا دی جاتی ہے؟”

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔