پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک بار پھر عوام کی تنقید کی زد میں آ گئے ہیں، جب 121 گاڑیوں کے لاک توڑ کر چوری کرنے والے ایک نوجوان کو صرف 5 گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔ اس واقعے نے شہریوں کو شدید غصے اور مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی پولیس کے کردار پر کڑی تنقید ہو رہی ہے۔
—
🚨 واقعے کی تفصیل: گرفتاری اور فوری رہائی
ذرائع کے مطابق، نوجوان کو لاہور کے ایک مصروف علاقے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ گاڑی کا لاک توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ابتدائی تفتیش کے دوران اس نے 121 وارداتوں کا اعتراف کیا، جن میں سے کئی کی ویڈیوز اور تصاویر بھی پولیس کے پاس موجود تھیں۔
لیکن حیرت انگیز طور پر، پانچ گھنٹے بعد اسے رہا کر دیا گیا، بغیر کسی واضح قانونی کارروائی کے۔
—
🔎 چوری کا طریقہ کار: مہارت یا معمولی سا ٹول؟
یہ لڑکا خاص قسم کا لاک توڑنے والا ٹول استعمال کرتا تھا، جس سے وہ چند سیکنڈ میں گاڑی کا دروازہ کھول لیتا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ:
اس کے پاس کوئی مہنگا سامان نہیں تھا
وہ عام لوکل ٹولز سے گاڑیاں کھولنے میں ماہر تھا
واردات کے فوراً بعد گاڑی سے قیمتی اشیاء نکال کر فرار ہو جاتا تھا
—
📊 چوری کی وارداتوں کا ڈیٹا
تفصیل تعداد
کل لاک توڑے گئے 121
صرف لاہور میں وارداتیں 67
دیگر شہروں (راولپنڈی، فیصل آباد) میں 54
گاڑیاں برآمد 9
چوری شدہ اشیاء (موبائل، نقدی، لیپ ٹاپ) درجنوں
—
🧑⚖️ قانون کے شکنجے سے آزادی: کہاں ہے نظام؟
یہ واقعہ صرف ایک چور کی رہائی نہیں بلکہ پولیس اور عدالتی نظام کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے:
اگر 121 وارداتوں کا اعتراف موجود ہے، تو پھر رہائی کیوں؟
کیا ایف آئی آر درج کی گئی؟
اگر کی گئی تو کس سیکشن کے تحت؟
اگر نہیں کی گئی، تو کس دباؤ میں چھوڑا گیا؟
عوامی حلقے اور وکلا برادری ان سوالات کے جواب مانگ رہے ہیں، مگر تاحال پولیس کی طرف سے کوئی باقاعدہ وضاحت نہیں دی گئی۔
—
💬 عوام کا ردعمل: مایوسی، غصہ اور بے بسی
سوشل میڈیا پر صارفین نے #پولیس_نظام_ناکام کے ہیش ٹیگ کے تحت اپنے جذبات کا اظہار کیا:
“ایک عام شہری اگر موٹر سائیکل کی رسید نہ دکھائے تو حوالات میں ڈال دیا جاتا ہے، اور یہ 121 وارداتوں والا لڑکا 5 گھنٹے بعد باہر!”
“یہ انصاف ہے یا مزاق؟”
“جب چور قانون سے آزاد گھومیں گے، تو عوام خود انصاف لینے پر مجبور ہوں گے۔”
—
🧠 ماہرین کی رائے: نرمی یا سازش؟
قانونی ماہرین کے مطابق:
اگر پولیس نے 121 وارداتوں کا اعتراف لیا ہے، تو یہ سیکشن 457، 380، 411 کے تحت ایک مضبوط کیس بنتا ہے
مگر اگر یہ محض زبانی اعتراف تھا، تو عدالتی کارروائی میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں
پولیس نے ایف آئی آر کمزور بنائی یا جان بوجھ کر ثبوت فراہم نہ کیے، تو چور کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے
کیا یہ صرف غفلت ہے یا کسی بااثر شخصیت کی پشت پناہی؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
—
🛑 قانون کا مذاق؟ یا عوام کے صبر کا امتحان؟
یہ واقعہ ہمارے نظام عدل و انصاف کے لیے ایک وارننگ سائرن ہے۔
جب ایک شخص 121 گاڑیاں چوری کرے اور صرف 5 گھنٹوں بعد باہر آجائے، تو یہ عوام کے چہروں پر طمانچہ ہے۔ اس سے ایک عام آدمی کا نظام پر اعتماد شدید متاثر ہوتا ہے۔
—
🔚 نتیجہ: یہ وقت ہے تبدیلی کا
اگر ایسے ملزموں کو فوری سزا نہ دی جائے تو:
عوام میں قانون سے بداعتمادی پیدا ہوتی ہے
جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہوتے ہیں
شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں
پولیس اور عدالتی نظام کو اب احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا تاکہ آئندہ کسی چور کو قانون کا مذاق اُڑانے کی اجازت نہ ملے۔















Leave a Reply