لاہور کے معروف اسپتال میں ہلچل، نرس کی پراسرار موت نے ہسپتال انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا

Oplus_16908288
7 / 100 SEO Score

لاہور کے معروف اسپتال میں ہلچل، نرس کی پراسرار موت نے ہسپتال انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا

 

لاہور — پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال میں ایک نوجوان نرس کی پراسرار ہلاکت نے نہ صرف اسپتال کے عملے بلکہ پورے شہر کو چونکا دیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ واقعہ “طبی حادثہ” لگ رہا تھا، مگر جیسے جیسے تفصیلات سامنے آتی گئیں، کیس مشکوک اور الجھا ہوا ہوتا گیا۔

 

واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟

 

ذرائع کے مطابق نرس کی لاش ہسپتال کے عملے نے منگل کی صبح نائٹ ڈیوٹی کے بعد ایک خالی کمرے سے دریافت کی۔ ساتھی ملازمین کا کہنا ہے کہ متوفیہ نائٹ شفٹ پر تھی لیکن صبح کے وقت جب اس کا موبائل بند ملا اور وہ کسی بھی وارڈ میں موجود نہ تھی تو تلاش کا عمل شروع ہوا۔

 

کچھ ہی دیر بعد نرس کی لاش ایک کمرے سے ملی، جہاں وہ تنہا تھی۔ لاش کے پاس کوئی زہریلی دوا یا چاقو جیسا آلہ نہیں ملا، لیکن چہرے کے تاثرات، کپڑوں کی حالت، اور جسم پر موجود چند نشانات نے شبہات کو جنم دے دیا۔

 

نرس کون تھی؟

 

نام: (نام مخفی رکھا جا رہا ہے، پولیس تحقیقات کے مطابق)

 

عمر: تقریباً 26 سال

 

تعلق: لاہور کے نواحی علاقے سے

 

مدت ملازمت: کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال میں گزشتہ دو سال سے بطور اسٹاف نرس کام کر رہی تھی

 

 

ابتدائی تحقیقات کیا کہتی ہیں؟

 

پولیس اور فارنزک ٹیم نے فوری طور پر جائے وقوعہ کو سیل کر کے ثبوت جمع کرنا شروع کر دیے۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح طور پر موت کی وجہ کا تعین نہیں ہو سکا، تاہم گلا دبانے کے نشانات، جسم پر نیلاہٹ اور ناخنوں میں جلد کے ذرات پائے جانے کے بعد پولیس نے قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔

 

ایس پی ماڈل ٹاؤن کا کہنا ہے:

 

> “ہم ہر پہلو سے تحقیقات کر رہے ہیں، اسپتال کے CCTV کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی گئی ہے اور قریبی وارڈز میں کام کرنے والے اسٹاف سے پوچھ گچھ جاری ہے۔”

 

 

 

مشکوک حرکات، خفیہ تعلقات؟

 

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق نرس کسی مخصوص سینئر ڈاکٹر سے قریبی تعلقات رکھتی تھی، جسے پولیس نے فوری طور پر شاملِ تفتیش کر لیا ہے۔ مزید برآں، موبائل فون کی چیٹ ہسٹری اور کال ریکارڈز کو بھی تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

 

اسپتال انتظامیہ کا ردِعمل

 

کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال کے ایم ایس کا کہنا تھا:

 

> “یہ واقعہ ہمارے لیے بھی صدمہ ہے۔ ہم پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور تمام شواہد ان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ نرس کی فیملی سے مکمل ہمدردی ہے۔”

 

 

 

عوامی ردِعمل — سوشل میڈیا پر ہنگامہ

 

واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر “#JusticeForNurse” کا ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ لوگ اسپتال میں خواتین کی حفاظت پر سوالات اٹھا رہے ہیں:

 

کیا اسپتال کا سیکیورٹی سسٹم ناکام ہو چکا ہے؟

 

نائٹ شفٹ میں اکیلی خواتین ملازمین محفوظ نہیں؟

 

کیا یہ واقعی قتل ہے؟ یا خودکشی کو قتل ظاہر کیا جا رہا ہے؟

 

 

جدول: واقعے کی اہم معلومات

 

تفصیل معلومات

 

مقام واقعہ کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال، لاہور

نرس کی عمر 26 سال

موت کا وقت نائٹ ڈیوٹی کے بعد، صبح سویرے

موت کی نوعیت مشکوک (پوسٹ مارٹم رپورٹ زیرِ غور)

پولیس کارروائی جائے وقوعہ سیل، افراد شامل تفتیش

مشکوک افراد ایک سینئر ڈاکٹر، دو وارڈ بوائے

سیکیورٹی ویڈیوز CCTV فوٹیج قبضے میں لے لی گئی

عوامی ردعمل سوشل میڈیا پر انصاف کا مطالبہ

 

 

ڈی آئی جی لاہور کا بیان

 

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کا کہنا تھا:

 

> “اگر یہ قتل ہے تو قاتل کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے گی۔ نرسنگ اسٹاف ہماری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔”

 

 

 

نتیجہ — یہ صرف ایک موت نہیں، پورے نظام پر سوال

 

اس واقعہ نے ایک بار پھر خواتین کے لیے ورک پلیس پر سیکیورٹی کے خدشات کو اجاگر کر دیا ہے۔ کیا ہم واقعی ایک ایسا نظام رکھتے ہیں جہاں رات کی ڈیوٹی پر جانے والی ایک نرس محفوظ نہیں؟ کیا مقتولہ کو انصاف ملے گا؟ کیا اسپتال انتظامیہ پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

 

یہ سوالات صرف میڈیا نہیں، عوام بھی اٹھا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس کیس کو صرف فائل بند کرنے کے لیے نمٹاتی ہے یا واقعی کسی کو انصاف دلوایا جاتا ہے۔

لاہور کے معروف اسپتال میں ہلچل، نرس کی پراسرار موت نے ہسپتال انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا

لاہور — پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال میں ایک نوجوان نرس کی پراسرار ہلاکت نے نہ صرف اسپتال کے عملے بلکہ پورے شہر کو چونکا دیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ واقعہ “طبی حادثہ” لگ رہا تھا، مگر جیسے جیسے تفصیلات سامنے آتی گئیں، کیس مشکوک اور الجھا ہوا ہوتا گیا۔

واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟

ذرائع کے مطابق نرس کی لاش ہسپتال کے عملے نے منگل کی صبح نائٹ ڈیوٹی کے بعد ایک خالی کمرے سے دریافت کی۔ ساتھی ملازمین کا کہنا ہے کہ متوفیہ نائٹ شفٹ پر تھی لیکن صبح کے وقت جب اس کا موبائل بند ملا اور وہ کسی بھی وارڈ میں موجود نہ تھی تو تلاش کا عمل شروع ہوا۔

کچھ ہی دیر بعد نرس کی لاش ایک کمرے سے ملی، جہاں وہ تنہا تھی۔ لاش کے پاس کوئی زہریلی دوا یا چاقو جیسا آلہ نہیں ملا، لیکن چہرے کے تاثرات، کپڑوں کی حالت، اور جسم پر موجود چند نشانات نے شبہات کو جنم دے دیا۔

نرس کون تھی؟

نام: (نام مخفی رکھا جا رہا ہے، پولیس تحقیقات کے مطابق)

عمر: تقریباً 26 سال

تعلق: لاہور کے نواحی علاقے سے

مدت ملازمت: کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال میں گزشتہ دو سال سے بطور اسٹاف نرس کام کر رہی تھی

ابتدائی تحقیقات کیا کہتی ہیں؟

پولیس اور فارنزک ٹیم نے فوری طور پر جائے وقوعہ کو سیل کر کے ثبوت جمع کرنا شروع کر دیے۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح طور پر موت کی وجہ کا تعین نہیں ہو سکا، تاہم گلا دبانے کے نشانات، جسم پر نیلاہٹ اور ناخنوں میں جلد کے ذرات پائے جانے کے بعد پولیس نے قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔

ایس پی ماڈل ٹاؤن کا کہنا ہے:

> “ہم ہر پہلو سے تحقیقات کر رہے ہیں، اسپتال کے CCTV کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی گئی ہے اور قریبی وارڈز میں کام کرنے والے اسٹاف سے پوچھ گچھ جاری ہے۔”

 

مشکوک حرکات، خفیہ تعلقات؟

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق نرس کسی مخصوص سینئر ڈاکٹر سے قریبی تعلقات رکھتی تھی، جسے پولیس نے فوری طور پر شاملِ تفتیش کر لیا ہے۔ مزید برآں، موبائل فون کی چیٹ ہسٹری اور کال ریکارڈز کو بھی تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

اسپتال انتظامیہ کا ردِعمل

کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال کے ایم ایس کا کہنا تھا:

> “یہ واقعہ ہمارے لیے بھی صدمہ ہے۔ ہم پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور تمام شواہد ان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ نرس کی فیملی سے مکمل ہمدردی ہے۔”

 

عوامی ردِعمل — سوشل میڈیا پر ہنگامہ

واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر “#JusticeForNurse” کا ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ لوگ اسپتال میں خواتین کی حفاظت پر سوالات اٹھا رہے ہیں:

کیا اسپتال کا سیکیورٹی سسٹم ناکام ہو چکا ہے؟

نائٹ شفٹ میں اکیلی خواتین ملازمین محفوظ نہیں؟

کیا یہ واقعی قتل ہے؟ یا خودکشی کو قتل ظاہر کیا جا رہا ہے؟

جدول: واقعے کی اہم معلومات

تفصیل معلومات

مقام واقعہ کوٹ لکھپت جنرل ہسپتال، لاہور
نرس کی عمر 26 سال
موت کا وقت نائٹ ڈیوٹی کے بعد، صبح سویرے
موت کی نوعیت مشکوک (پوسٹ مارٹم رپورٹ زیرِ غور)
پولیس کارروائی جائے وقوعہ سیل، افراد شامل تفتیش
مشکوک افراد ایک سینئر ڈاکٹر، دو وارڈ بوائے
سیکیورٹی ویڈیوز CCTV فوٹیج قبضے میں لے لی گئی
عوامی ردعمل سوشل میڈیا پر انصاف کا مطالبہ

ڈی آئی جی لاہور کا بیان

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کا کہنا تھا:

> “اگر یہ قتل ہے تو قاتل کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے گی۔ نرسنگ اسٹاف ہماری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔”

 

نتیجہ — یہ صرف ایک موت نہیں، پورے نظام پر سوال

اس واقعہ نے ایک بار پھر خواتین کے لیے ورک پلیس پر سیکیورٹی کے خدشات کو اجاگر کر دیا ہے۔ کیا ہم واقعی ایک ایسا نظام رکھتے ہیں جہاں رات کی ڈیوٹی پر جانے والی ایک نرس محفوظ نہیں؟ کیا مقتولہ کو انصاف ملے گا؟ کیا اسپتال انتظامیہ پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

یہ سوالات صرف میڈیا نہیں، عوام بھی اٹھا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس کیس کو صرف فائل بند کرنے کے لیے نمٹاتی ہے یا واقعی کسی کو انصاف دلوایا جاتا ہے۔

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔