پاکستان کے حساس ترین ایٹمی منصوبے تک رسائی کی حیران کن خفیہ کہانی
اسلام آباد —
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ جہاں ایک طرف سائنس اور حب الوطنی کی عظیم مثالوں سے بھری ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف کچھ ایسے حیران کن واقعات بھی پیش آئے جنہوں نے ملکی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈال دیا۔ انہی میں سے ایک واقعہ وہ ہے جب ایک بھارتی انٹیلیجنس ایجنٹ نے نیوکلیئر سائنسدان کے روپ میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری (KRL) کا دورہ کیا — اور کسی کو شک تک نہ ہوا!
—
پس منظر: کہوٹہ پلانٹ کیا ہے؟
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری، پاکستان کے دفاعی پروگرام کا ایک حساس اور خفیہ مرکز ہے، جہاں یورینیم کی افزودگی (uranium enrichment) کے ذریعے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بنیادی مواد تیار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر قیادت 1976 میں قائم ہوا اور چند ہی سالوں میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
—
خفیہ داخلہ: ایجنٹ کیسے اندر داخل ہوا؟
ذرائع کے مطابق، 1980 کی دہائی میں ایک شخص نے معروف غیر ملکی نیوکلیئر ادارے کے ریسرچر کے طور پر پاکستانی سفارت خانے سے ویزا حاصل کیا۔
اس کا تعلیمی و تحقیقی ریکارڈ جعلی تھا، لیکن اس وقت سیکیورٹی کلیئرنس کے بین الاقوامی معیار اتنے سخت نہ تھے۔
اس شخص کو پاکستان کے سائنسدانوں کے ساتھ تعاون کی غرض سے “نیوکلیر کوآپریشن وزٹ” کے تحت کہوٹہ پلانٹ کا محدود دورہ کرایا گیا۔
—
دورے کا مقصد کیا تھا؟
اندرونی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس ایجنٹ کا اصل مقصد:
کہوٹہ پلانٹ کی اندرونی ساخت اور آلات کی جانچ کرنا
یورینیم افزدوگی کی رفتار اور مشینری کا اندازہ لگانا
پاکستانی نیوکلیئر سائنسدانوں کی مہارت کا جائزہ لینا
اور ان سب کی معلومات بھارت کی خفیہ ایجنسی RAW کو فراہم کرنا تھا۔
—
پردہ کیسے فاش ہوا؟
یہ کہانی سالوں تک راز رہی، حتیٰ کہ ایک ریٹائرڈ سائنسدان کی خودنوشت میں اس واقعے کا مختصر ذکر سامنے آیا۔
بعد میں بعض قومی اداروں کی تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ شخص بھارتی انٹیلیجنس کا “ڈیپ کور” ایجنٹ تھا، جس نے کئی ممالک میں ایسے جعلی سائنسدان بن کر دورے کیے تھے۔
—
سیکیورٹی اداروں کی فوری کارروائی
اس واقعے کے بعد:
کہوٹہ پلانٹ اور دیگر نیوکلیئر تنصیبات میں سیکیورٹی کلیئرنس کے نئے، سخت ترین اصول متعارف کرائے گئے
غیر ملکی دوروں پر مکمل بیک گراؤنڈ چیکس لازم قرار دیے گئے
اور حساس اداروں کو سائنسدانوں کی بیرونی ملاقاتوں پر مکمل نظر رکھنے کی ہدایت دی گئی
—
ماہرین کا ردعمل
پاکستانی دفاعی ماہرین نے اس واقعے کو “ایک انتہائی سنجیدہ مگر خاموش خطرہ” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
> “اگر اس وقت ایجنٹ نے خفیہ معلومات نکال لی ہوتیں، تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدید خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے نقصان محدود رہا۔”
پاکستان کے حساس ترین ایٹمی منصوبے تک رسائی کی حیران کن خفیہ کہانی
اسلام آباد —
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ جہاں ایک طرف سائنس اور حب الوطنی کی عظیم مثالوں سے بھری ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف کچھ ایسے حیران کن واقعات بھی پیش آئے جنہوں نے ملکی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈال دیا۔ انہی میں سے ایک واقعہ وہ ہے جب ایک بھارتی انٹیلیجنس ایجنٹ نے نیوکلیئر سائنسدان کے روپ میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری (KRL) کا دورہ کیا — اور کسی کو شک تک نہ ہوا!
—
پس منظر: کہوٹہ پلانٹ کیا ہے؟
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری، پاکستان کے دفاعی پروگرام کا ایک حساس اور خفیہ مرکز ہے، جہاں یورینیم کی افزودگی (uranium enrichment) کے ذریعے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بنیادی مواد تیار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر قیادت 1976 میں قائم ہوا اور چند ہی سالوں میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
—
خفیہ داخلہ: ایجنٹ کیسے اندر داخل ہوا؟
ذرائع کے مطابق، 1980 کی دہائی میں ایک شخص نے معروف غیر ملکی نیوکلیئر ادارے کے ریسرچر کے طور پر پاکستانی سفارت خانے سے ویزا حاصل کیا۔
اس کا تعلیمی و تحقیقی ریکارڈ جعلی تھا، لیکن اس وقت سیکیورٹی کلیئرنس کے بین الاقوامی معیار اتنے سخت نہ تھے۔
اس شخص کو پاکستان کے سائنسدانوں کے ساتھ تعاون کی غرض سے “نیوکلیر کوآپریشن وزٹ” کے تحت کہوٹہ پلانٹ کا محدود دورہ کرایا گیا۔
—
دورے کا مقصد کیا تھا؟
اندرونی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس ایجنٹ کا اصل مقصد:
کہوٹہ پلانٹ کی اندرونی ساخت اور آلات کی جانچ کرنا
یورینیم افزدوگی کی رفتار اور مشینری کا اندازہ لگانا
پاکستانی نیوکلیئر سائنسدانوں کی مہارت کا جائزہ لینا
اور ان سب کی معلومات بھارت کی خفیہ ایجنسی RAW کو فراہم کرنا تھا۔
—
پردہ کیسے فاش ہوا؟
یہ کہانی سالوں تک راز رہی، حتیٰ کہ ایک ریٹائرڈ سائنسدان کی خودنوشت میں اس واقعے کا مختصر ذکر سامنے آیا۔
بعد میں بعض قومی اداروں کی تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ شخص بھارتی انٹیلیجنس کا “ڈیپ کور” ایجنٹ تھا، جس نے کئی ممالک میں ایسے جعلی سائنسدان بن کر دورے کیے تھے۔
—
سیکیورٹی اداروں کی فوری کارروائی
اس واقعے کے بعد:
کہوٹہ پلانٹ اور دیگر نیوکلیئر تنصیبات میں سیکیورٹی کلیئرنس کے نئے، سخت ترین اصول متعارف کرائے گئے
غیر ملکی دوروں پر مکمل بیک گراؤنڈ چیکس لازم قرار دیے گئے
اور حساس اداروں کو سائنسدانوں کی بیرونی ملاقاتوں پر مکمل نظر رکھنے کی ہدایت دی گئی
—
ماہرین کا ردعمل
پاکستانی دفاعی ماہرین نے اس واقعے کو “ایک انتہائی سنجیدہ مگر خاموش خطرہ” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
> “اگر اس وقت ایجنٹ نے خفیہ معلومات نکال لی ہوتیں، تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدید خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے نقصان محدود رہا۔”















Leave a Reply