دنیا میں جب بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یا جنگی جرائم کی خبریں سامنے آتی ہیں، نظریں فوراً مغربی دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف جاتی ہیں۔ خاص طور پر G7 ممالک، جنہیں عالمی انصاف، ترقی اور امن کے چیمپئنز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایک حیران کن سوال عوام کے ذہن میں ابھر رہا ہے: کیا G7 واقعی انصاف کا علمبردار ہے یا صرف معاشی مفادات کا محافظ؟
اس رپورٹ میں ہم جانیں گے G7 کی اصل حیثیت، اس میں کینیڈا کا کردار، اور آخر کینیڈا جیسے “امن پسند” ملک کی خاموشی کس بات کی علامت ہے۔
—
G7 کیا ہے؟ صرف ایک گروپ یا عالمی طاقت کا تھنک ٹینک؟
G7، یعنی “گروپ آف سیون”، سات ایسے ممالک پر مشتمل ہے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
ملک کا نام عالمی اثر و رسوخ GDP (عالمی فیصد) فوجی طاقت انسانی حقوق کا ریکارڈ
امریکہ بہت زیادہ 24% سب سے بڑی متنازع
برطانیہ زیادہ 3% طاقتور درمیانہ
فرانس زیادہ 3% ایٹمی طاقت بہتر
جرمنی زیادہ 4.5% محدود بہتر
جاپان اقتصادی حد تک 5% دفاعی معتدل
اٹلی کم 2% محدود بہتر
کینیڈا معتدل 2% محدود بہتر
یہ گروپ کسی اقوام متحدہ جیسا ادارہ نہیں بلکہ ایک غیر رسمی پلیٹ فارم ہے جہاں یہ ممالک عالمی معاملات پر مشترکہ مؤقف یا حکمت عملی طے کرتے ہیں۔
—
G7 کا کردار عالمی انصاف میں: صرف الفاظ یا عملی اقدامات؟
جب دنیا میں:
فلسطین میں بچوں کی شہادت ہو،
یوکرین پر حملے ہوں،
چین میں مسلمانوں پر ظلم کی خبریں آئیں، تو عوام G7 سے ایک واضح اور سخت مؤقف کی امید رکھتے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ G7 کی پریس ریلیز “تشویش” تک محدود رہتی ہے۔
مثال کے طور پر:
یوکرین پر روسی حملے کے خلاف G7 نے سخت پابندیاں لگائیں۔
لیکن فلسطین یا کشمیر جیسے حساس مسائل پر صرف “اظہارِ تشویش” کیا گیا۔
یہ دہرا معیار لوگوں کو G7 کی نیت پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔
—
کینیڈا کا کردار: امن پسند یا خاموش تماشائی؟
کینیڈا کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا حمایتی ملک سمجھا جاتا ہے، لیکن جب بات آتی ہے مسلم دنیا میں ہونے والے مظالم پر، تو اس کی زبان اکثر بند رہتی ہے۔
حالیہ مثالیں:
فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے دوران، کینیڈا کی حکومت نے متوازن مؤقف اختیار کیا، اور اسرائیل کی مذمت سے گریز کیا۔
روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر بھی کینیڈا کی عملی مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی۔
کشمیر پر بھارت کی پابندیوں پر بھی کینیڈا نے کھل کر کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔
—
کینیڈا کیوں خاموش ہے؟ اندرونی سیاست یا معاشی مفادات؟
اس سوال کا سیدھا جواب ہے: سفارتی توازن اور معاشی مفاد۔
یہودی لابی: کینیڈا میں بڑی یہودی آبادی ہے، اور سیاسی جماعتیں ان کے ووٹ اور فنڈنگ پر انحصار کرتی ہیں۔
بھارتی کمیونٹی: بڑی تعداد میں موجود ہے، اس لیے بھارت کے خلاف بولنے میں احتیاط کی جاتی ہے۔
امریکہ سے قربت: امریکہ کی پالیسی اکثر اسرائیل کی حمایت میں ہوتی ہے، جس سے الگ موقف اپنانا کینیڈا کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
خارجہ پالیسی کی اعتدال پسندی: کینیڈا عالمی سطح پر ایک “نرم قوت” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وہ سخت بیانات سے بچتا ہے تاکہ کسی ملک سے تعلقات خراب نہ ہوں۔
—
عوامی ردِعمل: سوشل میڈیا پر ہنگامہ
جہاں G7 اور کینیڈا کی حکومتیں خاموش رہتی ہیں، وہیں عوام کی آواز سوشل میڈیا پر گونجتی ہے۔
ٹوئٹر پر #ShameOnG7 اور #CanadaStandWithPalestine جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے ہیں۔
کینیڈا کے اندر بھی عوامی مظاہرے ہوتے ہیں جہاں لوگ حکومت سے دوٹوک مؤقف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں G7 پر “منافقت” کا الزام لگاتی ہیں۔
—
کیا G7 میں اصلاح کی ضرورت ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ G7 کو صرف معیشت پر بات کرنے کے بجائے:
عالمی مظالم پر مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے،
دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے،
تمام مظلوم قوموں کے لیے یکساں آواز اٹھانی ہو گی۔
ورنہ عوام کا اعتماد اس گروپ سے مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔
—
نتیجہ: G7 ایک طاقتور پلیٹ فارم، لیکن خاموشی سوالیہ نشان!
G7 کی حیثیت کسی حکومت جیسی نہیں، لیکن اس کا اثر اتنا طاقتور ہے کہ پوری دنیا کی پالیسیاں بدل سکتی ہیں۔ ایسے میں اگر یہ گروپ صرف اپنے معاشی مفادات کی فکر کرے اور انسانی حقوق پر خاموشی اختیار کرے، تو یہ عالمی انصاف کے ساتھ ظلم کے برابر ہے۔
کینیڈا جیسے ملک کا کردار اس میں کلیدی ہے۔ اگر وہ واقعی انسانی حقوق کا علمبردار ہے تو اسے ہر مظلوم کے لیے بولنا ہوگا — چاہے وہ فلسطین ہو، کشمیر ہو یا کوئی اور۔















Leave a Reply