سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم؟ علیمہ خان، صنم جاوید، فلک جاوید اور آفتاب اقبال کے خلاف سائبر کرائم انکوائری شروع!

7 / 100 SEO Score

سوشل میڈیا پر گمراہ کن بیانیہ، اداروں کے خلاف مہمات اور عوامی ذہن سازی کے الزامات میں اب ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے 27 مئی 2025ء کو علیمہ خان، صنم جاوید، فلک جاوید اور مشہور یوٹیوبر و اینکر آفتاب اقبال کے خلاف باقاعدہ انکوائری کا آغاز کر دیا ہے۔

 

کیس کی ابتدائی تفصیلات

 

ذرائع کے مطابق NCCIA نے شکایات کی بنیاد پر ان چاروں شخصیات کے خلاف ابتدائی تحقیقات شروع کیں۔ یہ شکایات ان سوشل میڈیا پوسٹس اور ویڈیوز سے متعلق ہیں جن میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور گمراہ کن مواد نشر کیا گیا۔

 

انکوائری کا پس منظر

 

ملک میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائمز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ پر قابو پانے کے لیے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی نے بڑے پیمانے پر سرویلنس شروع کر رکھی ہے۔ حالیہ عرصے میں کئی شخصیات کی طرف سے:

 

ریاستی اداروں پر تنقید

 

افواجِ پاکستان کو متنازع بنانے کی کوشش

 

سیاسی فائدے کے لیے عوام کو اکسانے کی مہمات

 

غیر مصدقہ اور اشتعال انگیز بیانات

 

 

یہ سب ایسے عوامل ہیں جن پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

 

ملزمان کا تعارف اور پس منظر

 

نام پیشہ ممکنہ الزامات

 

علیمہ خان سابق خاتون اول، سیاسی شخصیت اداروں کے خلاف بیانات اور آن لائن مہم

صنم جاوید سیاسی کارکن ریاست مخالف سوشل میڈیا پوسٹس

فلک جاوید سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ویڈیوز اور ٹرینڈز کے ذریعے نفرت انگیزی

آفتاب اقبال یوٹیوبر، اینکر طنزیہ مواد، افواج پر بالواسطہ تنقید

 

 

قانونی پہلو اور سائبر کرائم ایکٹ

 

پاکستان میں سائبر کرائم ایکٹ 2016 کے تحت کسی بھی فرد کو آن لائن:

 

ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے

 

جھوٹی معلومات پھیلانے

 

نفرت پر مبنی مواد نشر کرنے

 

 

پر قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق ایف آئی اے اور NCCIA کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، یوٹیوب چینلز اور دیگر پلیٹ فارمز کی مکمل نگرانی کر کے قانونی کارروائی کریں۔

 

اہم شواہد کیا ہیں؟

 

ذرائع کے مطابق NCCIA کو ان چاروں افراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے:

 

متعدد ویڈیوز اور کلپس

 

ٹوئٹر / ایکس پر اشتعال انگیز بیانات

 

مخصوص ہیش ٹیگز جو ریاستی اداروں کے خلاف استعمال ہوئے

 

یوٹیوب پر چلائی گئی سیریز اور پروپیگنڈہ ویڈیوز

 

 

ملے ہیں جن کی فرانزک جانچ جاری ہے۔

 

سوشل میڈیا کے خطرناک رجحانات

 

حالیہ مہینوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے:

 

عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے

 

جھوٹے نظریات اور بیانیے عام کرنے

 

بیرونی ایجنڈے کو تقویت دینے

 

 

کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ اب ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، اور ریاست کو کمزور کرنے والے ہر اقدام کے خلاف سخت ترین کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

 

حکومتی ردِ عمل

 

حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ NCCIA آزادانہ اور غیر جانبدار طریقے سے انکوائری کر رہی ہے۔ اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ان افراد کے خلاف:

 

مقدمات درج کیے جائیں گے

 

سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جا سکتے ہیں

 

ملزمان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے

 

 

عوامی ردعمل: سوشل میڈیا تقسیم کا شکار

 

سوشل میڈیا پر انکوائری کے آغاز کے بعد رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے:

 

کچھ صارفین اسے آزادی اظہار پر قدغن قرار دے رہے ہیں

 

جبکہ دوسرا طبقہ اسے ریاستی اداروں کا دفاع اور “صحیح اقدام” قرار دے رہا ہے

 

 

یہی تقسیم دراصل وہ خلاء ہے جسے دشمن قوتیں اپنی مہمات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

 

 

 

نتیجہ: کیا سائبر اسپیس کا جنگی میدان بن چکا ہے؟

 

نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی حالیہ کارروائی یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ ریاست اب مزید سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے اور ریاستی اداروں کی تضحیک برداشت نہیں کرے گی۔ علیمہ خان، صنم جاوید، فلک جاوید اور آفتاب اقبال کے خلاف جاری انکوائری محض ایک آغاز ہے — آنے والے دنوں میں مزید نام بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

 

ریاستی اداروں کے تحفظ اور قومی سلامتی کی خاطر ایسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو یہ صرف ایک سیاسی ہتھیار نہیں، بلکہ ریاستی بنیادوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر گمراہ کن بیانیہ، اداروں کے خلاف مہمات اور عوامی ذہن سازی کے الزامات میں اب ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے 27 مئی 2025ء کو علیمہ خان، صنم جاوید، فلک جاوید اور مشہور یوٹیوبر و اینکر آفتاب اقبال کے خلاف باقاعدہ انکوائری کا آغاز کر دیا ہے۔

کیس کی ابتدائی تفصیلات

ذرائع کے مطابق NCCIA نے شکایات کی بنیاد پر ان چاروں شخصیات کے خلاف ابتدائی تحقیقات شروع کیں۔ یہ شکایات ان سوشل میڈیا پوسٹس اور ویڈیوز سے متعلق ہیں جن میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور گمراہ کن مواد نشر کیا گیا۔

انکوائری کا پس منظر

ملک میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائمز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ پر قابو پانے کے لیے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی نے بڑے پیمانے پر سرویلنس شروع کر رکھی ہے۔ حالیہ عرصے میں کئی شخصیات کی طرف سے:

ریاستی اداروں پر تنقید

افواجِ پاکستان کو متنازع بنانے کی کوشش

سیاسی فائدے کے لیے عوام کو اکسانے کی مہمات

غیر مصدقہ اور اشتعال انگیز بیانات

یہ سب ایسے عوامل ہیں جن پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ملزمان کا تعارف اور پس منظر

نام پیشہ ممکنہ الزامات

علیمہ خان سابق خاتون اول، سیاسی شخصیت اداروں کے خلاف بیانات اور آن لائن مہم
صنم جاوید سیاسی کارکن ریاست مخالف سوشل میڈیا پوسٹس
فلک جاوید سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ویڈیوز اور ٹرینڈز کے ذریعے نفرت انگیزی
آفتاب اقبال یوٹیوبر، اینکر طنزیہ مواد، افواج پر بالواسطہ تنقید

قانونی پہلو اور سائبر کرائم ایکٹ

پاکستان میں سائبر کرائم ایکٹ 2016 کے تحت کسی بھی فرد کو آن لائن:

ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے

جھوٹی معلومات پھیلانے

نفرت پر مبنی مواد نشر کرنے

پر قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق ایف آئی اے اور NCCIA کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، یوٹیوب چینلز اور دیگر پلیٹ فارمز کی مکمل نگرانی کر کے قانونی کارروائی کریں۔

اہم شواہد کیا ہیں؟

ذرائع کے مطابق NCCIA کو ان چاروں افراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے:

متعدد ویڈیوز اور کلپس

ٹوئٹر / ایکس پر اشتعال انگیز بیانات

مخصوص ہیش ٹیگز جو ریاستی اداروں کے خلاف استعمال ہوئے

یوٹیوب پر چلائی گئی سیریز اور پروپیگنڈہ ویڈیوز

ملے ہیں جن کی فرانزک جانچ جاری ہے۔

سوشل میڈیا کے خطرناک رجحانات

حالیہ مہینوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے:

عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے

جھوٹے نظریات اور بیانیے عام کرنے

بیرونی ایجنڈے کو تقویت دینے

کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ اب ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، اور ریاست کو کمزور کرنے والے ہر اقدام کے خلاف سخت ترین کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

حکومتی ردِ عمل

حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ NCCIA آزادانہ اور غیر جانبدار طریقے سے انکوائری کر رہی ہے۔ اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ان افراد کے خلاف:

مقدمات درج کیے جائیں گے

سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جا سکتے ہیں

ملزمان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے

عوامی ردعمل: سوشل میڈیا تقسیم کا شکار

سوشل میڈیا پر انکوائری کے آغاز کے بعد رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے:

کچھ صارفین اسے آزادی اظہار پر قدغن قرار دے رہے ہیں

جبکہ دوسرا طبقہ اسے ریاستی اداروں کا دفاع اور “صحیح اقدام” قرار دے رہا ہے

یہی تقسیم دراصل وہ خلاء ہے جسے دشمن قوتیں اپنی مہمات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

نتیجہ: کیا سائبر اسپیس کا جنگی میدان بن چکا ہے؟

نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی حالیہ کارروائی یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ ریاست اب مزید سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے اور ریاستی اداروں کی تضحیک برداشت نہیں کرے گی۔ علیمہ خان، صنم جاوید، فلک جاوید اور آفتاب اقبال کے خلاف جاری انکوائری محض ایک آغاز ہے — آنے والے دنوں میں مزید نام بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

ریاستی اداروں کے تحفظ اور قومی سلامتی کی خاطر ایسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو یہ صرف ایک سیاسی ہتھیار نہیں، بلکہ ریاستی بنیادوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔