پاکستان کے شہروں میں ٹریفک مسائل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، مگر جب اس بدنظمی کے پیچھے موجود اصل کرداروں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو جواب خاموشی یا پھر دھمکی کی صورت میں آتا ہے۔ رکشے اور چنگچی جیسے چھوٹے ٹرانسپورٹ ذرائع کو ہر مسئلے کی جڑ قرار دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اجازت دینے والے ہاتھ زیادہ گندے ہیں۔
چنگچی اور رکشہ، مسائل یا مجبوریاں؟
بلاشبہ یہ چھوٹے سواریاں عام شہریوں کے لیے سستی اور آسان سواری ہیں، مگر یہی سواریاں اس وقت ٹریفک میں رکاوٹ بن جاتی ہیں جب ان کی تعداد بے قابو ہو جائے اور وہ بغیر کسی قواعد و ضوابط کے سڑکوں پر دوڑائی جائیں۔ مگر سوال یہ نہیں کہ رکشہ سڑک پر کیوں ہے، سوال یہ ہے کہ اس کو سڑک پر لانے والا کون ہے؟
اہم حقائق پر نظر ڈالیں
پہلو حقیقت
رجسٹریشن کی حالت بیشتر چنگچی اور رکشے غیر رجسٹرڈ
ڈرائیور کا معیار زیادہ تر بغیر لائسنس
رشوت کا عمل دخل ٹریفک اہلکاروں کو روزانہ کی بنیاد پر “منتھلی” دی جاتی ہے
کارروائی کا ہدف صرف غریب، چنگچی یا رکشہ والا
بااثر گاڑیوں کا حال ویگو، لینڈ کروزرز پر کوئی چالان نہیں
رشوت اور ظلم کا گٹھ جوڑ
سڑکوں پر موجود ٹریفک پولیس اہلکار اکثر غریب رکشہ ڈرائیوروں پر تو اپنی طاقت استعمال کرتے ہیں، مگر جیسے ہی ویگو یا پرادو آتی ہے، سلیوٹ دینے میں دیر نہیں کرتے۔
رکشے والے کا انجن زرا دھواں چھوڑ دے، فوراً چالان
سواریاں زیادہ ہوں، تو حوالات کی دھمکی
کسی افسر یا بڑے کا بیٹا بغیر لائسنس گاڑی چلائے، تو کوئی سوال نہیں
رکشہ والے سے “منتھلی” نہ ملے، تو گاڑی بند
یہ نظام صرف طاقتور کے لیے سہولت اور کمزور کے لیے سزا بن چکا ہے۔
کیا صرف رکشہ ہی قصوروار؟
اگر رکشہ چنگچی واقعی مسئلہ ہیں، تو پھر:
ان کی فیکٹریاں کیوں بند نہیں ہوتیں؟
پرمٹ کیوں جاری کیے جا رہے ہیں؟
بغیر رجسٹریشن کے گاڑیوں کو روڈ پر آنے دیا جاتا ہے، وہ بھی کیسے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ صرف سڑک پر چلنے والی گاڑی نہیں، بلکہ پورا نظام ہے جو اسے سڑک پر لاتا ہے۔
رکشہ ڈرائیور: زندگی کی جنگ لڑتا سپاہی
اکثر رکشہ ڈرائیوروں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ یہ کام کیوں کرتے ہیں، تو جواب ہوتا ہے:
> “بچوں کو بھوکا تو نہیں مار سکتے، یہی واحد ذریعہ ہے روزی کا۔”
مگر ٹریفک پولیس کے رویے سے یہی لگتا ہے کہ جیسے یہ غریب محض قانون توڑنے کے لیے سڑک پر آتے ہیں۔
عوام کا مطالبہ: دوہرا نظام ختم کرو
شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی ٹریفک نظام کو بہتر بنانا چاہتی ہے، تو:
ویگو، پرادو اور بڑی گاڑیوں پر بھی یکساں قانون لاگو کیا جائے
رشوت لینے والے اہلکاروں کو برطرف کیا جائے
چنگچی و رکشہ رجسٹریشن اور فٹنس کے ساتھ مخصوص روٹس پر چلائے جائیں
ٹریفک قوانین کی تعلیم عام کی جائے، خاص طور پر رکشہ ڈرائیوروں کے لیے
ٹریفک اہلکار: خدمت یا خراج؟
عوامی رائے کے مطابق زیادہ تر ٹریفک اہلکار سروس کم اور خراج زیادہ لیتے ہیں۔ یہ “منتھلی سسٹم” ایک ایسا دیمک ہے جو پورے نظام کو کھا چکا ہے۔ اگر کوئی رکشہ ڈرائیور منتھلی نہ دے، تو اس کی گاڑی بند، اگر دے دے تو ہر قانون معاف۔
کب بدلے گا یہ نظام؟
حکومت وقت کو یہ سوچنا ہوگا کہ صرف نچلے طبقے پر قانون لاگو کرنا اور بااثر طبقے کو استثنیٰ دینا، معاشرتی بےچینی کو جنم دیتا ہے۔ اگر چنگچی رکشہ واقعی غیرقانونی ہیں، تو انہیں بنانے والوں، پرمٹ دینے والوں اور سڑکوں پر چھوڑنے والوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔















Leave a Reply