وفاقی دارالحکومت میں ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے اندوہناک قتل نے سوشل میڈیا صارفین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ متاثرہ خاتون کو اس کے گھر میں گھس کر ماں کی آنکھوں کے سامنے دو گولیاں مار دی گئیں۔ مقدمہ مقتولہ کی والدہ کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔
والدہ نے پولیس کو دی گئی بیان میں کہا کہ پیر کی شام تقریباً 5 بجے ایک شخص ان کے گھر میں داخل ہوا اور بغیر کسی تمہید کے فائرنگ کر دی۔ ثنا یوسف کو دو گولیاں لگیں، جس کے بعد ملزم موقع سے فرار ہو گیا۔ زخمی خاتون کو فوراً اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔
واقعہ تھانہ سنبل کی حدود میں پیش آیا جہاں مقتولہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ پولیس کے مطابق ثنا کا تعلق چترال سے تھا اور سوشل میڈیا پر ایک فعال شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھی۔
ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ قاتل واردات سے پہلے کچھ دیر تک گھر کے باہر کھڑا رہا اور ممکنہ طور پر مقتولہ سے گفتگو بھی کی۔ پولیس کو شبہ ہے کہ ملزم مقتولہ کا قریبی رشتہ دار ہو سکتا ہے، تاہم اس حوالے سے حتمی رائے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد دی جائے گی۔
سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ جائے وقوعہ سے شواہد بھی اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ مقتولہ کی لاش کو پمز اسپتال منتقل کیا گیا جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد میت کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔
⚠️ عوامی ردعمل اور تحفظات: یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے والے افراد خصوصاً خواتین، کس قدر غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ ثنا یوسف کی موت صرف ایک فرد کا سانحہ نہیں بلکہ ایک ایسے سسٹم پر سوالیہ نشان ہے جو عورت کو نہ گھر میں تحفظ دے سکا، نہ ہی باہر۔
📌 اپیل برائے انصاف: سوشل میڈیا پر “جسٹس فار ثنا” کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ صارفین کا مطالبہ ہے کہ قاتل کو جلد از جلد گرفتار کر کے مثالی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی اور بیٹی کو ایسا انجام نہ دیکھنا پڑے
Leave a Reply